پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان سمندر سے زیادہ گہری اور ہمالیہ سے زیادہ بلند دوستی کے رشتوں نے بلاشبہ تمام علاقائی اور عالمی مسائل پر فکری اور نظریاتی ہم آہنگی اور مطابقت کے جس تاثر کو تقویت دی ہے وہ علاقائی امن و سلامتی کے لئے خشت اول کا درجہ رکھتی ہے۔ انہی مسائل میں افغانستان کا مسئلہ بھی سر فہرست ہے اور عوامی جمہوریہ چین کی قیادت نے افغان مسئلہ کے حل کے لئے دی جانے والی پاکستان کی قربانیوں کا ہمیشہ کھل کر اعتراف کیا ہے اور ان قربانیوں کے باوجود بعض عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ چین کی قیادت کو افغانستان سے متعلق پاکستان کی پالیسی سے مکمل اتفاق ہے اور وہ اس مسئلے کے پائیدار حل کے لئے بھی پاکستان سے بھرپور تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔ چنانچہ حال ہی میں بیجنگ میں پاکستان اور چین نے امن و امان کے قیام کے متعلق مذاکرات جاری رکھنے اور افغان حکومت کی مدد اور تعاون کے ساتھ افغانستان میں سیاسی مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیاہے۔ اس موقع پر چینی نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی عظیم قربانیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ مذاکرات کے دوران دونوں ملکوں نے علاقے میں امن و سلامتی کے لئے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ نائب چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے افغانستان میں سیاسی مفاہمت کے لئے پاکستان کے موقف کا اعادہ کیا۔
جہاں تک افغان مسئلے کا تعلق ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کے خلاف افغان جہاد کے خاتمے کے بعد ملک میں امن و سلامتی کے قیام، جنگ کے اثرات کو ختم کرنے اور صحیح عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کی طرف توجہ دینے کی بجائے فوری فرار کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں مختلف قبائل کے درمیان رنگ و نسل اور لسانی بنیادوں پر تصادم کی فضا نے ملک کو ایک اور تباہ کن جنگ میں دھکیل دیا اور پھر جب صبغت اللہ مجددی کی تین ماہ کی عارضی حکومت کے قیام کے بعد خوفناک سیاسی انتشار اور جنگ و جدل پر قابو پاتے ہوئے ملا عمر کی قیادت میں ایک گروپ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور افغان عوام کی بھاری اکثریت نے اس حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا بھرپور ساتھ دیا تو ملک گیر سطح پر امن و امان کے قیام اور تعمیر و ترقی کا ایک حوصلہ افزا اور امیدپرور دور شروع ہوا چنانچہ ملاعمر کی دعوت پر جب راقم الحروف کو افغانستان کے دورے پر جانے اور حکومت کی کارکردگی دیکھنے کا موقع ملا تو ہمارے وفد میں شامل تمام افراد اس پر بے حد مطمئن نظر آئے۔ چنانچہ یہ صورتحال عالمی سطح پر اسلام دشمن طاقتوں کے لئے ناقابل برداشت تھی کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اگر یہ نظام چھ وسط ایشیائی ریاستوں سے ہوتا آگے بڑھا تو پورے مشرقی یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا کیونکہ روس کے 75سالہ تسلط کے بعد جو چھ وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئی ہیں ان میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے اور یہ علاقے کسی دور میں اسلامی قوت و طاقت کے مراکز رہے ہیں۔
75سال تک کمیونزم نظام کے نفاذ کے باوجود اسلام کے ساتھ ان ریاستوں کے مسلمانوں کی وابستگی آج بھی برقرار ہے چنانچہ اس خدشے کا احساس کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا اس طرح افغانستان اور عراق دونوں امریکہ اور مغربی طاقتوں کے اہداف بن گئے اور پھر افغانستان پر خوفناک حملے کے لئے امریکہ، اسرائیل اور اس کے حواریوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں جس طرح افغانستان کو ملوث قرار دینا شروع کیا وہ قطعی بے جواز تھا کیونکہ افغانستان کے پاس ایسے وسائل کا کوئی وجود نہ تھا کہ وہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کا ارتکاب کرتا ۔ وہ بذات خود ایک جنگ زدہ ملک تھا جسے روس نے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا اور انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے صرف ایک ٹیلی فون پر دھمکی کے بعد اس وقت کے فوجی آمر جنرل مشرف نے ہتھیار ڈالتے ہوئے پورے ملک کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اس طرح پاکستان جس نے افغان جہاد کی مکمل تائید و حمایت کی تھی اس کے لئے بے شمار قربانیاں دی تھیں اور 50لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے ساتھ ساتھ عالمی امداد کے علاوہ پاکستان ان مہاجرین پر روزانہ اپنے وسائل سے ایک کروڑ روپے خرچ کرتا رہا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کو افغانستان کے خلاف اپنے ساتھ کھڑا کرنے کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا اس طرح جو بے گناہ قبائلی نیٹو فورسز کا نشانہ بنتے رہے اور ڈرون حملوں نے ان کی سلامتی کو پامال کر ڈالا تو ان حملوں اور نیٹو فورسز کے علاوہ افغان فورسز کا نشانہ بننے والوں کے ورثا نے ان کا انتقام لینے کے لئے جوابی اقدام کے طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
پاکستان بھی ان افراد کی کارروائی کی لپیٹ میں آتا چلا گیا اس طرح قبائلی عوام کی اس انتقامی کارروائی کو دہشت گردی کا نام دے کر افغانستان میں بھارت نے پاکستان سے ملحقہ افغان شہروں میں 14قونصل خانے قائم کر کے انہیں دہشت گردوں کی تربیت گاہوں میں بدل دیا اور پھر ان دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح آج پورا پاکستان دہشت گردی کی جس لپیٹ میں آچکا ہے اس کی بنیادی ذمہ داری جنرل مشرف پر عائد ہوتی ہے لیکن خود افغانستان کے اندر قبائلی عوام کی طرف سے قبائلی روایات پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی غیر ملکی تسلط اور حکمران کو برداشت نہ کرنے کا جو عمل شروع ہوا اس نے اتحادی افواج کے لئے سنگین مشکلات پیدا کیں لیکن اتحادی قوتوں نے قبائلی اور خاص طور پر افغان عوام کے اس ردعمل کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اسے پاکستان کی طرف سے افغانستان میں دراندازی کا نام دیا گیا حالانکہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن اور دراندازی کو روکنے کے لئے درجنوں چیک پوسٹیں قائم کی ہیں۔ افغانستان کو ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت دی ہے اور افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لئے مالی اور فنی امداد بھی فراہم کی ہے۔
صدر حامد کرزئی کی طرف سے پاکستان کے خلاف بے جا اور مضحکہ خیز الزام تراشی کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا حالانکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پاک فوج نے بھی زبردست قربانیاں دی ہیں اور کم و بیش 4ہزار کے لگ بھگ پاک فوج کے افسر اور جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ لیکن اب دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی پاکستان دشمن قوتوں کی نظر میں کھٹک رہا ہے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ایران بھی اپنے پرامن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ان کا ہدف ہے لیکن ایران کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس پس منظر میں عوامی جمہوریہ چین کا طرزِعمل بھی حوصلہ افزا ہے اس لئے کہ اب افغانستان میں نیٹو فورسز کی طرف سے افغان عوام پر آئے روز تباہ کن حملوں اور بے گناہ افراد کی ہلاکت، تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے اور طلبا اور طالبات کو موت کے گھاٹ اتارنے پر صدر کرزئی کے رویے میں بھی کچھ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اسے اس امر کا احساس ہو گیا ہے کہ جب تک نیٹو فورسز افغانستان میں موجود ہیں وہاں امن و سلامتی اور تعمیر و ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
افغانستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں کے علاوہ عسکری حلقوں نے بھی صدر کرزئی پر دباؤ بڑھا دیا ہے اور انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ نیٹو فورسز کو ملک سے نکل جانے پر مجبور کریں۔ بعض اتحادی ممالک کے فوجی دستے افغانستان سے واپس جا چکے ہیں اور اب امریکہ کی طرف سے بھی 2014تک افغانستان سے فوج واپس بلانے کا عندیہ سامنے آ چکا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی ممالک خاص طور پر اس خطے کے مسلمان ممالک افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لئے یکساں موقف اختیار کریں اور افغان عوام کا بھرپور ساتھ دیں تاکہ عوامی دباؤ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے اور 2014 کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہنے کا موقف ختم کرنے پر مجبور کر دے اور افغانستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکے۔ اس پس منظر میں پاک چین مذاکرات ایک حوصلہ افزا امر ہے اس کے لئے ایران سمیت تمام دوسرے ملکوں کا تعاون بھی حاصل کرنا ضروری ہے۔