• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے متوقع عام انتخابات کی مانیٹرنگ کے حوالے سے ایک الیکشن سیل تشکیل دیا ہے، سیل سینیٹر تاج حیدر، بیرسٹر عامر حسن، لطیف کھوسہ، سینیٹر رخسانہ زبیری، لطیف اکبر اور امجد حسین پر مشتمل ہے۔ پارٹی کی جانب سے اپنا قومی منشور بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ منشور کی ایک کاپی بیرسٹر صاحب کی جانب سے موصول بھی ہو چکی، اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ تمام قومی میڈیا ہائوسز کے کالم نگاروں، رپورٹروں اور نیوز ایڈیٹروں تک بذات خود منشور کی کاپیاں پہنچائیں گے گویا کہا جا سکتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں حالات کی ناگفتہ بہ تصویر کے باوجود اپنے وجود کے عملی مظاہرے کا بھرپور ثبوت پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گی، لاہور میں البتہ پارٹی کے رہنمائوں میں سے شاید دو تین شخصیات کو چھوڑ کر پارٹی رہنمائوں کا اکثریتی نین ناگفتہ بہ ہے۔ آج عام انتخابات سر پر آنے کے باوجود ان چند مستثنیات کو چھوڑ کر پارٹی کا کوئی حال ہی نہیں، جو لوگ پارٹی کے گزشتہ منتخب اقتدار کے دورانئے میں وفاقی محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسران سے ’’ہمارا حصہ‘‘ مانگتے رہے۔ انہوں نے آج بھی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریاتی بیڑہ غرق کرنے کا مشن اپنا رکھا ہے۔ تفصیلات میں افراد کی ذات زیر بحث آنے کا خدشہ ہے لہٰذا اصولی پوزیشن کا بیانیہ ہی کافی ہے۔
میاں منظور وٹو پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی زوال پذیری کے ثبوت کا آخری نمایاں ترین سیاہ باب ہے، وہ پاکستان کی سیاست میں نفس پرستانہ طرز عمل کا طے شدہ عنوان ہیں، عوام میں ان کی شخصیت سیاسی اصول کے پس منظر میں کبھی غور و فکر کے لائق نہیں سمجھی گئی نہ ہی انہیں عوام نے قومی سیاست کے کسی صاحب اصول سیاسی عنصر کی جگہ پر رکھا، انہیں پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر تک نامزد کر دیا گیا پاکستان پیپلز پارٹی نے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کی تھیوری کا مرض اپنا کر اپنے نظریاتی تشخص اور مقصد کی اولیت قائم نہ رکھی، قائم کیا رکھتی جسد سیاست میں منظور وٹو جیسے سیاسی زہر کو اپنے اندر اتار لیا، المیے کی انتہا وہ لمحات ہیں جب آصف علی زرداری کے پائے کا وژنری منظور وٹو کو بطور ایک ’’سیاسی قدر یا سیاسی اصول‘‘ کے بیان اور تسلیم کرتا رہا، بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا الیکشن سیل پنجاب میں آج کی پیپلز پارٹی کا کوئی متحرک اور موثر تاثر قائم کر پاتا ہے یا نہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ان الفاظ سے اوپن ہوتا ہے۔ ’’آزادی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تفریق سے آزادی، استحصال سے آزادی، محرومیت سے آزادی، ان آزادیوں کا تحفظ ہو تو ہی قومیں خوشحال ہو سکتی ہیں‘‘
منشور کا اختتام ’’بند کرو یہ استحصال‘‘ کے عنوان سے اس نظم پہ ہوتا ہے۔
معیشت کا ہے برا حال....بند کرو یہ استحصال
مزدور ہمارا ہے بے حال ....بند کرو یہ استحصال
مظلوموں کی ہم ہیں ڈھال ....بند کرو یہ استحصال
انصاف کرنا ہے بحال ....بند کرو یہ استحصال
عوام کے حقوق ہوئے پامال ....بند کرو یہ استحصال
معیاری صحت کا ہے زوال ....بند کرو یہ استحصال
بےروزگاری کا ہے وبال ....بند کرو یہ استحصال
زرعی معیشت ہوئی بدحال ....بند کرو یہ استحصال
تعلیم ناپید ہے تاحال ....بند کرو یہ استحصال
ملک کو کر ڈالا کنگال ....بند کرو یہ استحصال
بجلی پانی کا ہے کال ....بند کرو یہ استحصال
’’تعلیم ناپید ہے‘‘ اور ’’بجلی پانی کا کال‘‘ کے اعلانات میں کافی حد تک مبالغہ ہے تاہم نظم میں بیان کردہ باقی تمام حالات ویسے ہی ہیں جیسا مشتہر کیا گیا ہے، سوال یہ ہے آج کی پاکستان پیپلز پارٹی، اگر اقتدار میں آ جائے تب بھی ان حالات میں کوئی جوہری تبدیلی لا سکے گی؟ اس پس منظر میں یہ امید دم توڑتی دکھائی دیتی ہے جب ہم پیپلز پارٹی کی تاریخی جدوجہد کے سنگھاسن پر ’’منظور وٹو کی بھی ضرورت ہے‘‘ جیسے فنامنے کے آگے بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
عباس اطہر مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں کہا تھا۔
سارے ملک، گہنگاروں کے میرے ہیں
ساری قومیں، مجبوروں کی میری ہیں
جتنے نام ہیں، گمنامی کے میرے ہیں
میں بے بس ہوں
سارے رسے
اس کے ہاتھ میں پکڑے ہیں
جس نے صبح کا تین دفعہ انکار کیا
اور ساری گردنیں میری ہیں
تاریکی کے تخت پہ جس نے
رسہ گلے میں باندھ کے بھی
اقرار کیا ہے
میرا کوئی نام نہیں ہے
میں نے پھانسی کے تختے پر جنم لیا ہے
رات نے میری گواہی دی ہے
صبح نے میری صفائی دی ہے!
بلاول بھٹو زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی اثاثے کے وارث ہیں، ہمارے ایک بے حد عزیز دوست کا یہ کہنا صحیح نہیں ’’جب تک آصف علی زرداری زندہ ہیں وہ وہی پالیٹکس کرے گا جو اس کا باپ چاہتا ہے!‘‘ سیاست خلاء میں نہیں زمین پر کی جاتی ہے اور دھرتی پر رشتوں کا جڑائو اور اثرات قانون قدرت ہیں، پھر آصف علی زرداری کی سیاسی جدوجہد محترم و مکرم ہے اسے یوں طبیعت کے کسی ذاتی لمحے کی قربان گاہ کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے، اصل سچائی کسی اور کونے میں پڑی ہے۔
وہ ہے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے سیاسی اور نظریاتی اثاثے کے سائبان تلے پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے عوامی خطاب کے بجائے نواز و عمران میں الجھ گئے ہیں یا الجھ جاتے ہیں انہیں اپنے ہر اقدام اور اپنے ہر عمل میں صرف پاکستانی عوام کو ان کے ’’اجتماعی استحصال‘‘ سے آگاہی کی مہم کو اس کی انتہائوں پر پہنچا دینا چاہئے۔
نومبر 1967سے پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی سیاسی سفر کو 51واں برس ہونے کو ہے، ان 51برسوں میں پاکستان کے عوام کی دہلیز پر انہیں بنیادی انسانی حقوق کے خواب کی عملی تعبیر دینے کی جدوجہد میں پیپلز پارٹی کی تاریخ آگ اور خون سے ہی عبارت نہیں کشمکش حیات کے سینکڑوں اور ہزاروں نشیب و فراز کی وادیوں میںلکھی جاتی رہی جن میں کبھی کبھی پھول بھی کھلتے رہے، بہرحال زیادہ تر ان الم انگیز داستانوں میں ہجرت، در بدری، پھانسیوں اور شہادتوں کے واقعات سے ان داستانوں کو کبھی ایک لحظے کے لئے بھی تو بانجھ نہ ہونے دیا۔ 51واں برس ہونے پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی بھاگ بھری گود سے پاکستانی عوام کے حسین خوابوں کا رشتہ نہیں ٹوٹا۔ ایک بزرگ کالم نگار نے یہ لکھ کر چڑھتے سورج جیسی سچائی کا اعتراف کیا۔ ان کا کہنا تھا۔ ’’ملک کی ایک بڑی پارٹی جو اس وقت بظاہر کمزور دکھائی دیتی ہے لیکن درحقیقت اس کے اندر جان دار صلاحیتیں موجود ہیں وہ پیپلز پارٹی ہے۔‘‘
1967نومبر سے 2018کی ان تقریباً پانچ دہائیوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین نے تختہ دار کو سرفراز کیا، پارٹی کی چیئرپرسن کو شہادت کا رتبہ ملا، جواں سال بھائی موت کی خشک ٹہنوں پہ وارے گئے، ضیاء الحق کے عہد اقتدار میں پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی اور آخری سیاسی ہجرت کی کہانی لکھی گئی، پارٹی چیئرمین کے ’’عدالتی قتل‘‘ کے بعد چار بار اقتدار کے ایوانوں کے لئے منتخب ہوئی، چاروں دفعہ عوام نے ریاستی سازشیوں کی ہوس آرائیوں اور تشدد و تعذیب کے زخموں سے چور ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کو اپنے انتخاب کا سزا وار قرار دیا۔
مئی 2013کے قومی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ’’شکست‘‘ کو ’’ایک علاقائی سندھی جماعت‘‘ کی سیاسی ریاضی تک محدود ہو جانے کے منفی امیج کی اجتماعی مبالغہ آرائی، دوروغ گوئی اور غیر حقیقی مہمات کا ایک ہی وقت میں کاروبار شروع کر دیا گیا تھا، وقت نے پلٹا کھا کر ردعمل دیا ہے یعنی مخالفین کا یہ سارا طرز عمل باطل تھا، وہی پیپلز پارٹی آج 2018کے عام انتخابات کے متوقع نقشہ اقتدار میں ’’بنیادی محور‘‘ ہے جس کے بغیر ایوان اقتدار میں کسی کا داخلہ ممکن نہیں ہو گا۔ پیپلز پارٹی اور اس کے منشور پر ابھی گفتگو جاری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین