• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دفعہ ایک شخص طویل عرصے کے بعد اپنے گائوں واپس آیا، جونہی وہ ٹرین سےنیچے اترا ، ایک پندرہ سولہ سالا لڑکا اس کے پاس آیا اورکہا ،’’ماموں کیا حال ہے ،بڑے عرصے بعد آئے،میں کب سے آپ کا انتظار کر رہا تھا، چلو اب جلدی گھرچلتےہیں، گرمی بہت ہے، امی آپ کا انتظار کر رہی ہیں، لائویہ سامان مجھے دے دو ،آپ کافی تھک گئےہوں گے ۔‘‘وہ شخص بہت پریشان ہوا اور اس نے پوچھا،’’بیٹا میں تو تمھیں جانتا بھی نہیں ہوں۔‘‘ 

لڑکے نے کہا، ماموں آپ بھول گئے، اس وقت میں بہت چھوٹا تھا وہ بے چارا لڑکے کی باتوں میں آگیا ،لڑکےسے اس کا نام پوچھا۔تو اُس نے کہا،’’منا، ماموں، منا‘‘ ۔دونوں ساتھ چلنے لگے، راستے میں نہر آئی، اُس شخص نےکہا، منے ،بیٹا گرمی بہت ہے ،میں ذرانہا لوں تم میرے سامان کی حفاظت کرنا ، اُس نے اپنے کپڑے اتار کر اسے دیےاور لنگوٹ کس کے نہر میں ڈبکی لگائی ، کچھ دیر بعدآنکھیں ملتے ہوئے جب واپس نہر سے نکلا تو وہاں نہ منا تھا نہ اس کا سامان۔ اُس نے زور زور سےآواز لگائیں ،’’منے، منے‘‘ لوگ اکھٹے ہو گئے پوچھا،’’ بھائی کیاہوا‘‘۔’’ارے وہ منامیرا بھانجا کہاں گیا‘‘لیکن کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔وہ منے کے ہاتھوں لُٹ چکا تھا۔

بالکل اسی طرح ہم بھی ووٹ دیتے ہیں ایم این ایز ایم پی ایز کو۔ وہ بڑے پیار سےہم سے ووٹ مانگتےہیں ،جیسےہم ان کے پچپن کے سنگی بیلی ہوں لیکن ووٹ لے کر ایسے غائب ہوتے ہیں، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ میں نے کل اپنے ایم این اے کی شکل دیکھی پورےتین سال کے بعدبڑی، پراڈو گاڑی میں تھے، جس کے شیشے بند تھے اور اس کے آگے پیچھے بھی کافی گاڑیاں تھیں، بس ایک اس کا احسان تھا کہ وہ گاڑی کے اندر سےہاتھ ہلا رہا تھا اور لوگ اپنے اپنےکاموں میں مصروف رہے، کسی نے پوچھا کون تھا یہ، جواب ملا، ہمارا ایم این اےہے ۔

تازہ ترین