• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ریاست کا بادشاہ جو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا، پھولوں کے بستر پر سونے کا عادی تھا۔ روز رات کو اُسے نئے پھولوں کی سیج والا بستر چاہیے ہوتا تھا۔ ایک روز ایک باندی بادشاہ کے کمرے میں کسی خدمت کے سلسلے میں گئی دیکھا تو بادشاہ حضور موجود نہیں، نجانے دل میں کیا آیا کہ سیج والے بستر پر بیٹھ گئی۔ نیند کا غلبہ تھا سو نیم دراز ہوئی اور سو گئی۔ اسی اثناء میں بادشاہ کمرے میں داخل ہوا۔ دیکھتے ہی جیسے آپے سے باہر ہوگیا، جلال میں آگیا۔ سوختہ بختی باندی کی آنکھ کھل گئی۔ بادشاہ نے خادم کو حکم دیا کہ ابھی اس گستاخ کو نشانِ عبرت بنایا جائے، اس کو اُلٹا ٹانگ دیا جائے اور اِتنے کوڑے مارے جائیں کہ اس کی جان نکل جائے۔

حکم کی تعمیل ہوئی۔ باندی کو اُلٹا لٹکادیا گیا اور کوڑے لگانا شروع کردئے گئے۔ ہر کوڑے پر باندی بلبِلا اٹھتی، چیختی چلاتی ،مگر بادشاہ کے حکم پر کسی کو رحم نہ آیا۔

بادشاہ یہ منظر دانت پیِستے اور نخوت کے عالم میں دیکھتا رہا۔ اُسے باندی کے جسم پر پڑتے ہر کوڑے سے تسکین مل رہی تھی۔

کچھ ہی دیر گزری کہ روتی ہوئی باندی کو ہنسی آنے لگی، ہنسی قہقہے میں بدل گئی،اب عالم یہ تھا کہ کبھی کوڑا لگنے پر اذیت کے مارے رو پڑتی اور کبھی کوڑا پڑتے ہی ہنس پڑتی۔

بادشاہ اس پر بڑا حیران ہوا۔ خادم کو ہاتھ کے اشارہ سے روکا اور کہا کہ اِس پاگل سے پوچھو یہ وقت کوئی ہنسنے کا ہے؟

خادم نے باندی سے پوچھا تو باندی بولی "روتی اس لیے ہوں کہ ہر کوڑا عالمِ نزع کی سی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ درد کی شدت ایسی ہوتی ہے کہ بس اذیت کی انتہا ہوجاتی ہے، مگر ہنستی اس لیے ہوں کہ مجھے ایک لمحے پھولوں کی سیج پر سونے کی اتنی بڑی سزا مل رہی ہے، سوچ رہی ہوں کہ اُس کا اگلے جہاں میں کیا حال ہوگا جو عمر بھر پھولوں کی سیج پر سوتا رہا ہے؟"

یہ جواب سن کر بادشاہ کو کیسا لگا ہوگا؟ اس پر مورخ خاموش ہیں، مگر یہ واقعہ پڑھ کر سوچیے، یہ پھولوں کی سیج پر بیٹھے حکمران کل بڑی عدالت میں کیا فیصلہ سننے والے ہیں؟ ذرا سوچیے۔

(کفیل اسلم)

تازہ ترین