• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز،مریم اور صفدر کی جرم کیخلاف فیصلے کیلئے 30 روز درکار ہونگے

اسلام آباد(طارق بٹ)نوازشریف،ان کی بیٹی مریم اوردامادکیپٹن(ر) صفدر کی جرم کیخلاف فیصلے کیلئے 30 روز درکار ہونگے،وکیل اعظم نذیر کادی نیوز سے گفتگو میں کہنا ہے کہ نوازشریف اور دیگر اپیلیں دائر کرنے سے پہلے خود کو حوالے کردینگے،تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نوازشریف ،ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن(ر)صفدر کی جانب سے اپنے جرم کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیل کے فیصلے کیلئے 30 روز درکار ہونگے ۔اگرچہ نیب نے اس اپیل کے فیصلے کیلئے وقت مقرر کیا ہے لیکن بہ مشکل ہی کسی درخواست پر اس مقررہ وقت میں فیصلہ ہو پاتا ہے ۔تاہم معروف وکیل اس سے اختلاف رائے رکھتے ہیں ،جبکہ سابق وزیر اعظم اور دیگر دو کی گرفتار ی دینے کا اختیار ہے اور ان کی پاکستان میں موجودگی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل جمع کرانے کیلئے لازمی ہے ۔لیکن قانونی دماغ اس پر متفق ہے کہ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر ہے کہ گرفتار ی یا موجودگی میں استثنا دیدے ۔نوازشریف اور دیگر کے پاس اپیل کیلئے دس روز کا وقت ہے ۔قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 32 کے مطابق کوئی بھی مجرم شخص یا نیب پراسیکیو ٹر جنرل جسے چیئرمین نیب کی ہدایت ہو او راحتساب عدالت حتمی فیصلے کے دس روز میں استثنیٰ دے سکتی ہے اور متعلقہ ہائی کورٹ میں اپیل ترجیح ہے ،تاہم کوئی بھی اپیل احتساب عدالت کے عارضی احکامات پر نہیں ہوگی ،مزید یہ کہ حتمی فیصلے کیخلاف تمام اپیلیںمتعلقہ ہائی کورٹ میں ایسا بنچ سنے گا کہ جس کی تعداد دو سے کم نہ ہو اور اپیلیں فائل کرنے کے تیس روز میں فیصلہ آجائے گا۔احتساب عدالت کے کسی عارضی احکامات کیخلاف کوئی نظر ثانی نہیں ہوگی ۔تاہم جہاں کوئی شخص نظر ثانی کیلئے اپیل کرے گا تو وہ اس کے فائدے میں ہوگی ریفرنس ،دستاویز اور حکمنامے کی کاپی فراہم کی جائے گی ۔ایسی درخواست احتساب عدالت کے فیصلے کے دس روز میں دائر کی جائے گی ۔جس سے ایسے فیصلے کی کاپی تین روز میں دیدی جائے گی ۔اگر احتساب عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل کی جاتی ہے تو تیس روز میں فیصلہ ہوگا اور ریفرنس کو عدالتی فیصلہ کرنے کیلئے بھی اتنا ہی وقت درکار ہوگا۔اگر مقررہ وقت میں کوئی اپیل نہیں نمنٹائی گئی تو اسی دورانیے میں کسی ریفرنس کا فیصلہ بھی نہیں ہوگا ۔اگرچہ شریف خاندان کیخلاف سپریم کورٹ کی ہدایت پر احتساب عدالت کی جانب سے تین ریفرنسز کی سماعت تیزی سے ہوئی ۔ان میں سے لندن جائیداد سے متعلق صرف ایک پر فیصلہ کیاگیا اور اس میں نو ماہ کا عرصہ لگا ۔احتساب عدالت نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی ،یہ نہیں معلوم کہ باقی دورہ جانے والے ریفرنس کا فیصلہ کب آئے گا۔قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 16 کے مطابق ایک ملزم جو کسی الزام میں ایک ریفرنس میں پراسیکیوشن کا سامنا کررہا ہو اور کیس روزانہ کی بنیاد پر سناجائے گا اور اس کا فیصلہ تیس روز میں کیا جائے گا ۔احتساب عدالت وفاقی حکومت کی مقرر کردہ جگہ پر لگائی جائے گی ۔کارروائی کرنے والے وکیل اعظم نذیر تارڑ سے رابطہ کرنے پر انہوں نے دی نیوز کو بتایا کہ نوازشریف اور دیگر اپیلیں دائر کرنے سے پہلے خود کو تحویل میں دیدیں گے اور احتساب عدالت کے فیصلے کی معطلی کا انتظار کرینگے ۔درخواست ضمانت کیلئے رٹ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ انتہائی کمزور ہے اور خود متضا د ہے۔ان کی رائے کے مطابق کسی کو بھی مفروضے کی بنیاد پر مجرم نہیں بنایا جاسکتا اور شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک منفرد فیصلہ تھا ۔نگراں وفاقی وزیر سید علی ظفر شاہ نے جمعے کی شب ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ یہ نوازشریف ،مریم نواز اور صفدر کیلئے ضروری نہیں ہے کہ حوالے کردیںاور احتساب عدالت فیصلے کیخلاف اپیل کیلئے پاکستان میں موجود ہوں۔دوسری جانب ایک اور وکیل نے اسی پروگرام میں کہا کہ وہ ان سے اتفاق نہیں کرتے اور کہا کہ مجرم کو خود کو حکام کے حوالے کرنا اور اپیل جمع کرانے کیلئے پاکستان میں ہونا چاہیے ۔یہ واضح ہے کہ دونوں پاکستان میں نہیں ہونگے کہ جب ان کے اہم وکیل خواجہ حارث کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کا منصوبہ ہے ۔یہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ وکیل خصوصی طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا اپیلیں قبول کرنے سے متعلق جواب دیکھنا چاہتے ہیں کہ قبول ہوگی یا اعتراض سے واپس کردی جاتی ہے کہ مجرموں نے خود کو حوالے نہیں کیا اور پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔
تازہ ترین