قوم دس روز بعد 15 ویں اسمبلی کے لیے نمایندوں کا چناؤ کرے گی۔ بلاشبہ مُلکوں کی ترقّی و استحکام میں انتخابی عمل ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں انتخابی روایات کچھ زیادہ مثالی نہیں اور اس ضمن میں برتی گئی کوتاہیوں کا ہم بھاری خمیازہ بھی بھگتتے بھی آ رہے ہیں، تاہم خوش آیند بات یہ ہے کہ اب ہماری ہاں بھی اسمبلیاں اپنی آئینی مدّت پوری کرنے لگی ہیں اور اگر انتخابی عمل اسی طرح کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہا، تو امید ہے کہ اس میں پائی جانے والی کمیاں، کوتاہیاں بھی ایک ایک کر کے دُور ہو جائیں گی۔ ہمارے ہاں صدرِ مملکت، سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں وغیرہ کے لیے بھی انتخابات ہوتے ہیں، جب کہ قوم نے دو ریفرنڈم بھی بُھگتے ہیں۔ یہ سارے ہی انتخابات اہم ہیں ،مگر سردست ہمارا موضوع قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہیں۔ سو، پاکستان کی ستّر سالہ تاریخ میں منعقد ہونے والے ان انتخابات کا ایک مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
آئین ساز اسمبلیاں
وائسرائے ہند، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ہندوستانی رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد، 26 جولائی 1947 ء کو گزٹ آف انڈیا میں پاکستان کا دستور بنانے کے لیے ایک 69 رُکنی دستور ساز اسمبلی کے قیام کا نوٹی فکیشن شایع ہوا۔ بعدازاں، اُس اسمبلی کے ارکان کی تعداد بڑھا کر 79 کردی گئی۔ دراصل یہ ارکان 1946 ء کے انتخابات میں ان علاقوں سے منتخب ہوئے تھے، جو بعدازاں پاکستان کا حصّہ بنے۔ اس اسمبلی کا پہلا اجلاس 10 اگست 1947 ء کو سندھ اسمبلی بلڈنگ، کراچی میں ہوا۔ اگلے روز بابائے قوم، قائدِ اعظم محمّد علی جناح کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا۔ 12 اگست کو اُن کے لیے سرکاری طور پر’’ قائدِ اعظم‘‘ کے خطاب کی منظوری دی گئی۔ 14 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایوان سے خطاب کیا اور یوں اختیارات کی منتقلی کا عمل انجام پایا۔ اُس کے اگلے روز قائدِ اعظم محمّد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اس اسمبلی نے کئی سیاسی نشیب وفراز دیکھے۔ اس نے آئین کے کئی مسوّدوں پر کام بھی کیا، لیکن 24 اکتوبر 1954 ء کو اُس وقت کے گورنر جنرل، غلام محمد نے اسے تحلیل کردیا۔ اسمبلی کے صدر، مولوی تمیزالدّین معاملے کو سندھ چیف کورٹ لے گئے، جس پر عدالت نے اسمبلی بحال کردی، مگر حکومت نے اس کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کردی، جس کے جج، جسٹس منیر نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ درست قرار دے دیا۔
دوسری دستور ساز اسمبلی 21 جون 1955ء کو قائم ہوئی، جس کے 80 ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں نے کیا تھا اور ان80 نشستوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں برابر، برابر تقسیم کیا گیا۔ اُس اسمبلی میں مسلم لیگ کے 26، مولوی فضل حق کی کرشک سرامک پارٹی) کسان اتحاد) کے 16، عوامی لیگ کے 13، کانگریس کے 4، پروگریسیو پارٹی کے 2 اور اچھوت فیڈریشن کے3ارکان جیت کر آئے، جب کہ باقی نشستیں آزاد ارکان کے پاس تھیں۔ یہ اسمبلی اپنا ہدف حاصل کرنے میں کام یاب رہی اور اس نے قوم کو پہلے مُلکی آئین کا تحفہ دیا۔ آئین کی منظوری کے ساتھ ہی یہ قانون ساز اسمبلی، قومی اسمبلی میں تبدیل ہو گئی۔ 1956ء کے آئین کے تحت اکتوبر 1958ء میں مُلک کے پہلے عام انتخابات ہونے تھے، مگر جوں جوں وقت قریب آتا گیا، الیکشن کی تاریخ بدلتی رہی اور پھر 7 اکتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر الیکشن کی بساط ہی لپیٹ دی۔
1951 ء سے 1965 ء تک کے معرکے
پاکستان میں 1956 ء تک وفاقی سطح پر دستور ساز اسمبلیاں کام کرتی رہیں، جن کے لیے عام انتخابات نہیں کروائے گئے، بلکہ اُن کے ارکان کو صوبائی اسمبلیاں ہی منتخب کرتی رہیں۔ لہٰذا، اس عرصے کے دَوران صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے رہے۔ مارچ 1951 ء میں پنجاب اسمبلی کی 197 نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی اور اُسی برس 8 دسمبر کو سرحد اسمبلی کے الیکشن ہوئے، جب کہ مئی 1953 ء میں سندھ اسمبلی کا انتخاب ہوا۔ ان تمام انتخابات میں منتخب بلدیاتی نمایندوں ہی نے ووٹ کاسٹ کیے، تاہم مارچ1954ء میں مشرقی بنگال اسمبلی کے انتخابات اس لحاظ سے اہم ہیں کہ اس میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹنگ ہوئی۔ حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور مولوی فضل الحق نے مسلم لیگ کے مقابلے میں’’ جگتو فرنٹ‘‘ (متحدہ محاذ) قائم کیا اور 309ارکان کی اسمبلی میں223نشستیں جیت لیں، جب کہ مسلم لیگ محض 10 نشستوں ہی پر کام یابی حاصل کرسکی، یہاں تک کہ مسلم لیگی وزیراعلیٰ، نورالامین ایک نوجوان سے ہار گئے۔ متحدہ محاذ نے مولوی فضل حق کی قیادت میں حکومت بنائی، لیکن گورنر جنرل، غلام محمّد نے اُسے2ماہ کے اندر ہی ختم کر دیا۔
یکم مارچ 1962 ء کو نئے آئین کے نفاذ کے بعد، 28 اپریل 1962 ء کو قومی اسمبلی کی 150 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی، جب کہ 6 نشستیں خواتین کے لیے مختص تھیں۔ ان تمام نشستوں کو مُلک کے دونوں حصّوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا۔8 مئی کو صوبائی اسمبلیوں کے لیے پولنگ ہوئی، اُس وقت ون یونٹ کے تحت مُلک میں دو ہی صوبے تھے، مغربی اور مشرقی صوبہ۔ تین برس بعد، 21 مارچ 1965 ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ ان دونوں انتخابات میں 80 ہزار بلدیاتی نمایندوں نے ( مُلک کے دونوں حصّوں سے 40 ، 40 ہزار) ووٹ کاسٹ کیے۔ یاد رہے، اُن اسمبلیوں کی آئینی مدّت تین برس تھی۔
1970ء کے تاریخی انتخابات
7سمبر1970ء اِس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اُس روز مُلکی تاریخ میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کروائے گئے۔ نیز، اُن انتخابات کو مُلکی تاریخ کے اب تک کے سب سے شفّاف انتخابات کا درجہ بھی حاصل ہے۔
البتہ، یہ الگ بات ہے کہ انتخابی نتائج کو اُن کی روح کے مطابق تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے مُلک دو حصّوں میں تقسیم ہو گیا۔ اُس الیکشن میں 300 جنرل نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے 162 مشرقی اور 138 نشستیں مغربی پاکستان میں تھیں، جب کہ 13 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص تھیں۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ باقی دو نشستوں میں سے ایک پر نورالامین اور دوسری پر راجا تری دیورائے منتخب ہوئے۔ عوامی لیگ کو مغربی پاکستان سے کوئی نشست نہیں مل سکی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے81، مسلم لیگ کونسل نے 7، مسلم لیگ کنونشن نے 2، مسلم لیگ قیوم نے 9، جے یو آئی نے 7، جے یو پی نے 7، نیپ نے 6، جماعتِ اسلامی نے4 اور جمہوری پارٹی نے ایک نشست پر کام یابی حاصل کی، لیکن یہ تمام نشستیں صرف مغربی پاکستان ہی سے جیتی گئی تھیں۔ مجموعی طور پر 16امیدوار آزاد حیثیت میں جیتے۔ ۔صوبائی اسمبلیوں کے نتائج کے مطابق، مشرقی پاکستان کی 300 نشستوں میں سے288 عوامی لیگ نے جیتیں، جب کہ7 امیدوار آزاد حیثیت میں کام یاب ہوئے۔پی ڈی پی کو 2 نشستوں پر کام یابی ملی، تو جماعتِ اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی کے حصّے میں ایک، ایک نشست آئی۔ پنجاب کی 180 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی کو 113، مسلم لیگ کنونشن کو 15، مسلم لیگ قیوم کو 6، کونسل مسلم لیگ کو 6، جے یوپی کو 4، پی ڈی پی کو 4، جے یو آئی کو 2 اور جماعتِ اسلامی کو ایک نشست ملی، جب کہ 28امیدوار آزاد حیثیت میں جیتے۔ سندھ کی 60نشستوں میں سے پی پی پی کو 28، جے یو پی کو 7، مسلم لیگ قیوم کو 5، کنونشن مسلم لیگ کو 4اور جماعتِ اسلامی کو ایک سیٹ ملی، جب کہ 14 آزاد امیدوار جیتے۔ صوبہ سرحد کی 40 نشستوں میں سے نیشنل عوامی پارٹی نے 13، مسلم لیگ قیوم نے 10، جے یو آئی نے 4، پی پی پی نے 3، کونسل مسلم لیگ نے 2، کنونشن مسلم لیگ اور جماعتِ اسلامی نے ایک، ایک نشست جیتی، جب کہ6 امیدوار آزاد رہے۔ بلوچستان کی 20نشستوں میں سے نیشنل عوامی پارٹی کو 8، مسلم لیگ قیوم کو 3، جے یو آئی کو 2 اور آزاد امیدواروں کو 5 نشستوں پر کام یابی ملی۔ ممتاز بھٹّو نے سندھ میں حکومت بنائی، تو عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے، مفتی محمود سرحد کے اور ملک معراج خالد پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ 60 فی صد کے قریب رہا، جو ایک ریکارڈ ہے۔
حکومت سازی کے لیے رسّہ کشی جاری تھی کہ بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور کئی روزہ جنگ کے بعد مُلک دو حصّوں میں بٹ گیا۔ ان حالات میں اُس وقت کے فوجی حکم راں، جنرل یحییٰ خان تمام اختیارات ذوالفقار علی بھٹّو کو سونپ کر اقتدار سے الگ ہو گئے، جنھوں نے 20 دسمبر 1971 ء کو پاکستان کے پہلے سِول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے طور پر اقتدار سنبھال لیا۔ قصّہ مختصر، 14 اپریل 1972 ء کو اسلام آباد میں باقی ماندہ مُلک کی قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں1970 ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان سے منتخب ہونے والے 144 ارکان کے علاوہ، نورالامین اور راجا تری دیو رائے نے، جو مشرقی پاکستان سے منتخب ہوئے تھے، بھی شرکت کی۔ بعدازاں، یہ دونوں بھٹّو کابینہ کا بھی حصّہ بنے۔ اس اسمبلی نے مُلک کا متفقّہ آئین منظور کرکے تاریخ رقم کی، جسے 14اگست1973ء کو نافذ کیا گیا۔ اسی آئین کی روشنی میں 12 اگست 1973 ء کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے الیکشن ہوئے، جس میں ذوالفقار بھٹّو نے 108 اور مولانا شاہ احمد نورانی نے 28 ووٹ حاصل کیے، یوں زیڈ اے بھٹّو نے 14 اگست 1973 ء کو مُلک کے پہلے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھا لیا۔ اس آئین کے تحت اگلے عام انتخابات5برس بعد، 14اگست1978ء کو ہونا تھے، مگر وزیراعظم بھٹّو نے7جنوری1977ء کو اُسی برس7مارچ کو قومی اور10مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا۔
1977ء کے متنازع انتخابات
7مارچ1977ء کو قومی اسمبلی کی181نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی، جب کہ19نشستوں پر امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہو چکے تھے۔ ان انتخابات میں اپوزیشن کی نو جماعتوں نے’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ یعنی پی این اے تشکیل دیا، جس میں پاکستان مسلم لیگ، جماعتِ اسلامی، تحریکِ استقلال، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی، خاکسار تحریک اور کُل جمّوں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ ان پارٹیوں کو’’ نو ستارے‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ بہرکیف، پیپلزپارٹی نے 181 میں سے 155 ، پاکستان قومی اتحاد نے 36اور مسلم لیگ قیوم نے ایک نشست جیتی، جب کہ 8آزاد ارکان کام یاب ٹھہرے۔ پی این اے نے بلوچستان میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا، کیوں کہ وہاں اُن دنوں فوجی آپریشن جاری تھا، اس لیے وہاں کی ساتوں نشستیں بھی پی پی پی نے جیت لیں۔
نتائج سامنے آئے، تو قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام عاید کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ 10مارچ کو ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، بلکہ قومی اتحاد کے کام یاب امیدواروں نے قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے سے بھی انکار کردیا۔ جس کے بعد ایک طویل پُرتشدّد تحریک کا آغاز ہو گیا، جو5جولائی1977ء کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نتیجے میں ختم ہوئی۔
1985ء کے غیرجماعتی انتخابات
گو کہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے پر قوم سے خطاب میں چار ماہ بعد، یعنی اکتوبر میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا، مگر اکتوبر آیا، تو انتخابات غیرمعینہ مدّت کے لیے ملتوی کر دیے گئے۔ اُس کے بعد بھی وعدے ہوتے اور ٹوٹتے رہے اور پھر بالآخر تقریباً8برس بعد25فروری1985ء کو قومی اسمبلی کی237نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی، جب کہ28فروری کو صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں امیدواروں کی جماعتی وابستگی پر پابندی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف ایم آر ڈی نے، جس کی سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی تھی، الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا، لیکن الیکشن ہوئے اور سندھ سے تعلق رکھنے والے محمّد خان جونیجو وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ تین سال بعد ہی صدر ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58 (2 بی ) کے تحت 29مئی1988ء کو اپنی ہی نام زَد کردہ جونیجو حکومت کو گھر بھیج دیا۔ اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا، جہاں سے جونیجو حکومت کے حق میں فیصلہ تو آیا، لیکن نئے انتخابات کی تیاریوں کی وجہ سے حکومت بحال نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ اسی اسمبلی نے آئین میں آٹھویں ترمیم کرکے صدرِ مملکت کو اسمبلیاں برخاست کرنے کا اختیار دیا تھا۔
1988ء… بے نظیر بھٹّو وزیرِ اعظم بنیں
صدر ضیاء الحق1988ء کے الیکشن بھی غیرجماعتی بنیادوں ہی پر کروانا چاہتے تھے، جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہے، مگر17اگست1988ء کو طیارے کے ایک حادثے میں اُن کی وفات کے بعد2اکتوبر1988ء کو سپریم کورٹ نے جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروانے کا حکم دے دیا، لہٰذا16نومبر1988ء کو قومی اسمبلی کی207نشستوں کے لیے ووٹنگ ہوئی، جس میں پیپلزپارٹی نے 93 ، جب کہ مسلم لیگ، جماعتِ اسلامی اور دیگر جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد نے 55 نشستوں پر کام یابی سمیٹی۔ نیز، جے یو آئی نے 7، جے یو پی نے 3، پاکستان عوامی اتحاد نے 3، بی این اے نے 2، اے این پی نے 2، این پی پی نے 1، پی ڈی پی نے 1اور ایم کیو ایم نے13نشستوں پر کام یابی حاصل کی، جب کہ 27 امیدوار آزاد حیثیت میں جیتے۔ ایوان نے پیپلز پارٹی کی سربراہ، بے نظیر بھٹّو کو وزیرِ اعظم کے طور پر چُنا۔ وہ پاکستان اور عالمِ اسلام کی پہلی خاتون تھیں، جو اس عُہدے پر فائز ہوئیں۔ اس الیکشن کے نتیجے میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ سرحد، میاں نواز شریف پنجاب، سیّد قائم علی شاہ سندھ اور ظفراللہ جمالی بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔
چوں کہ جمالی حکومت کو ایوان میں اکثریت حاصل نہیں تھی، اس لیے محض دو ہفتے بعد ہی ان کی ایڈوائس پر گورنر نے صوبائی اسمبلی توڑ دی، جس پر بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا، تو اُس نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ غلط قرار دے دیا۔ یوں اسمبلی بحال ہوئی اور 5 فروری 1989 ء کو نواب اکبر بگٹی کو وزیراعلیٰ منتخب کرلیا گیا۔ ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان جاری کشیدگی کے سبب صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل شدہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے 6اگست1990ء کو بے نظیر حکومت برطرف کر دی۔
1990ء…میاں نواز شریف کی اینٹری
24اکتوبر1990ء کو قومی اور تین دن بعد صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹنگ ہوئی، جس میں پیپلزپارٹی نے تحریکِ استقلال، تحریک نفاذِ فقۂ جعفریہ اور مسلم لیگ قاسم گروپ کے ساتھ مل کر’’ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس‘‘ (پی ڈی اے) تشکیل دیا، جس نے44نشستیں جیتیں۔ آئی جے آئی106، ایم کیو ایم15، اے این پی6، جے یو آئی6، جے یو پی3، جمہوری وطن پارٹی2، پاکستان نیشنل پارٹی2 اور پختون خوا ملی پارٹی ایک نشست پر کام یاب رہی، جب کہ22آزاد امیدوار جیتے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ، میاں نواز شریف وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، لیکن اُنہیں بھی صدر غلام اسحاق خان نے18اپریل1993ء کو برطرف کر دیا۔ اگلے ماہ کی26تاریخ کو سپریم کورٹ نے نواز حکومت بحال تو کر دی، مگر سیاسی کھینچا تانی کے سبب نواز شریف اور غلام اسحاق خان، دونوں ہی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 18 جولائی1993 ء کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ 1990 ء کے انتخابات کے نتیجے میں غلام حیدر وائیں نے پنجاب، جام صادق علی نے سندھ، میر افضل نے سرحد اور تاج محمّد جمالی نے بلوچستان میں حکومت بنائی۔
1993ء… پھر بے نظیر
6اکتوبر1993ء کو قومی اور 9اکتوبر کو صوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکشن ہوئے۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصّہ لیا۔ اس الیکشن میں فریقین کی جانب سے زبردست انتخابی مہم چلائی گئی۔ بہرحال، پی پی پی86، آئی جے آئی72، اے این پی3، جے یو آئی4، جے یو پی2، جمہوری وطن پارٹی2، اسلامی فرنٹ (جماعت اسلامی)3، پختون خوا ملی پارٹی3، مسلم لیگ جونیجو6 اور متحدہ دینی محاذ2 نشستوں پر کام یاب رہا، جب کہ 6 نشستوں پر دیگر جماعتیں کام یاب ہوئیں اور 15نشستوں پر آزاد امیدوار جیتے۔ پیپلزپارٹی کی سربراہ، محترمہ بے نظیر بھٹّو نے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا کر اپنے والد کا ریکارڈ برابر کیا، لیکن5نومبر1996ء کو اُن کی حکومت کو، پیپلز پارٹی ہی کے منتخب کردہ صدر، فاروق احمد خان لغاری نے برطرف کر دیا۔ صوبوں کی صورتِ حال دیکھیں، تو منظور وٹو شہباز شریف کے 105 ووٹوں کے مقابلے میں 131 ووٹ لے کر پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ سرحد میں صابر شاہ، سندھ میں عبداللہ شاہ اور بلوچستان میں نواب ذوالفقار مگسی نے حکومت بنائی۔
1997ء… مسلم لیگ کی دو تہائی اکثریت
3فروری1997ء کو مُلکی تاریخ میں پہلی بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ایک ہی روز پولنگ ہوئی۔ جماعتِ اسلامی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ مسلم لیگ نے133، پی پی پی نے 18، ایم کیو ایم نے 11، جے یو آئی نے 2، اے این پی نے 10، جمہوری وطن پارٹی نے 2 اور بی این اے نے 3 نشستیں جیتیں، جب کہ 22نشستیں آزاد امیدواروں کے حصّے میں آئیں۔
اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی اس حوالے سے مایوس کُن رہی کہ اُس نے صرف 18 نشستیں جیتیں اور وہ بھی صرف سندھ سے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں اُسے 2 ، بلوچستان اور سرحد میں صرف ایک، ایک نشست ہی مل سکی، البتہ وہ سندھ میں 34 نشستوں پر کام یاب ٹھہری۔ نون لیگ نے ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل کی، خاص طور پر پنجاب سے مخالف جماعتوں کا صفایا کردیا۔ سردار مہتاب عباسی نے سرحد، شہباز شریف نے پنجاب، اختر مینگل نے بلوچستان اور لیاقت جتوئی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا، تو وفاق میں مسلم لیگ نون کے سربراہ، میاں نواز شریف نے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا، لیکن فوجی سربراہ، جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 ء کو اُن کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
2002ء… ق لیگ کے نام
10اکتوبر2002ء کو قومی اسمبلی کی کُل342نشستوں میں سے272 جنرل نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے، جب کہ60نشستیں خواتین اور 10اقلیتوں کے لیے مختص تھیں۔ اسی روز چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے بھی ووٹنگ ہوئی ۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ (ق) نے118نشستوں پر کام یابی حاصل کی، جب کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد، متحدہ مجلس عمل نے 59، پی پی پی پی نے 80، مسلم لیگ (نون) نے 18، ایم کیو ایم نے 17،نیشنل الائنس نے 16، مسلم لیگ (ف) نے 5، مسلم لیگ (ج) نے 3، پیپلزپارٹی (شیرپائو) نے 2، مہاجر قومی موومنٹ، بلوچستان نیشنل موومنٹ، جمہوری وطن پارٹی، پاکستان عوامی تحریک، مسلم لیگ (ض)، تحریکِ انصاف، پختون خوا ملّی عوامی پارٹی نے ایک، ایک نشست جیتی۔ تحریکِ انصاف کے کام یاب ہونے والے واحد امیدوار، پارٹی سربراہ عمران خان تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کے لیے ووٹنگ کا مرحلہ آیا، تو پیپلزپارٹی کے10ارکان نے فیصل صالح حیات کی قیادت میں فارورڈ بلاک بنا کر ق لیگ کے نام زَد امیدوار، ظفراللہ خان جمالی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ظفراللہ جمالی نے172، مولانا فضل الرحمٰن86اور پیپلزپارٹی کے امیدوار شاہ محمود قریشی نے70ووٹ حاصل کیے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب میں حکومت بنائی، تو ایم ایم اے اکرم خان درانی سرحد کے وزیراعلیٰ بنے۔ سندھ میں علی محمد خان مہر اور بلوچستان میں جام یوسف وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ حکم راں جماعت میں تنازعے کے سبب ظفراللہ جمالی 26 جون 2004 ء کو وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے، جس کے بعد تقریباً دو ماہ کے لیے ق لیگ کے سربراہ، چوہدری شجاعت حسین کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ اسی دَوران، شوکت عزیز کو ضمنی انتخاب لڑوا کر ایوان میں لایا گیا اور پھر اُنہیں 27 اگست 2004 ء کو وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔
2008ء…پیپلز پارٹی کا کم بیک
2002ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی اپنی آئینی مدّت کی تکمیل پر تحلیل ہوئی، تو نئے الیکشن کے لیے 8 جنوری 2008 ء کی تاریخ مقرّر کی گئی، مگر 27 دسمبر 2007 ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ، محترمہ بے نظیر بھٹّو لیاقت باغ، راول پنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے دَوران شہید کر دی گئیں۔
اس سانحے سے پیدا شدہ صُورتِ حال کے سبب الیکشن کی تاریخ بڑھا کر18 فروری کر دی گئی۔18فروری2008ء کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی پی نے 342 کے ایوان میں 125 ، مسلم لیگ (ن) نے 92، مسلم لیگ (ق) نے 50، ایم کیو ایم نے 25، اے این پی نے 13، مسلم لیگ (ف) نے 5، جے یو آئی نے 8، بی این پی (اے)، پی پی پی (شیرپائو) اور این پی پی نے ایک، ایک نشست جیتی۔ 20 امیدوار آزاد حیثیت میں جیتے، جن میں سے کئی ایک نے مختلف جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ انتخابات کے بعد دو بڑی جماعتوں، پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے درمیان مل کر کام کرنے پر اتفاق ہوا۔ اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد’’ اعلانِ مری‘‘ جاری کیا گیا، جس میں معاہدے کے نکات شامل تھے۔ اس معاہدے کے تحت پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی بھاری اکثریت یعنی264ووٹوں کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اُنھوں نے 24 مارچ 2008 ء کو عُہدے کا حلف اٹھایا، جب کہ اُن کی کابینہ میں مسلم لیگ نون کے 9ارکان بھی شامل تھے۔ اُدھر، اے این پی کے امیر حیدر ہوتی سرحد، قائم علی شاہ سندھ اور اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، جب کہ پنجاب میں دوست محمّد کھوسہ کو عارضی طور پر وزیر اعلیٰ بنایا گیا، جو شہباز شریف کے رُکنِ اسمبلی بننے پر مستعفی ہوگئے اور شہباز شریف نے اُن کی جگہ لے لی۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں ججز کی بحالی پر تنازعے کے سبب اتحاد زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور نون لیگی وزراء 13 مئی کو کابینہ سے الگ ہو گئے۔ بعدازاں، یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہوئے، تو پیپلزپارٹی ہی کے راجا پرویز اشرف نے وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی اور اسمبلی اپنی پانچ سالہ آئینی مدّت پر تحلیل ہوئی۔
2013ء… ایک بار پھر نون لیگ کی جیت
11مئی2013ء کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلم لیگ نون سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی، جس نے مجموعی طور پر167نشستیں حاصل کیں، جب کہ پیپلزپارٹی42، تحریک انصاف35، ایم کیو ایم23، جے یو آئی15، مسلم لیگ (ف)6،جماعت اسلامی4، پختون خوا ملی عوامی پارٹی4، نیشنل پیپلزپارٹی3، مسلم لیگ (ق)2 اور اے این پی، بی این پی، قومی وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیاء، آل پاکستان مسلم لیگ (مشرف)، عوامی مسلم لیگ اور عوامی جمہوری اتحاد ایک، ایک نشست پر کام یابی حاصل کر سکیں۔
28امیدوار آزاد حیثیت میں بھی کام یاب ہوئے۔ انتخابات کے بعد مسلم لیگ نون نے ایک اتحادی حکومت تشکیل دی، جس کے سربراہ میاں نواز شریف تھے، تاہم وہ سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 ء کے ایک فیصلے کی روشنی میں نااہل قرار پائے، جس پر نون لیگ ہی کے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کر لیا گیا، جو اسمبلی کی آئینی مدّت کے آخری روز تک عُہدے پر فائز رہے۔