• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت

ڈاکٹر رقیہ جعفری

 ہندوستانی تہذیب ایک مخلوط تہذیب ہے، خاص طور سے شمالی ہند میں، بقول فراق گورکھپوری۔

سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراق

قافلے آتے گئے ہندوستان بستاگیا

سچ ہے کہ ہندوستانی تہذیب بڑی جاذب نظر ہے، جس میں صدیوں کی داستانیں پوشید ہ ہیں،یہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں قدیم زمانے سے ہی دیگر اقوام کے آنے کا سلسلہ یہاں کی مخلوط تہذیب کی طرف اشارہ کرتا ہے، در اصل یہ دیگر اقوام کے انجزاب سے ہی ممکن ہے، کہ یہاں رنگا رنگ تہذیب دیکھنے کو ملتی ہے، دلی کو ہندوستان کا دل کہاجاتا ہے، لودھی حکومت میں سکندر لودھی نے سلطنت کو آگرہ میں منتقل کیا، اور مغل حکمرانوں میںبابر، ہمایوں اوراکبر وجہانگیر نے آگرہ سے ہی ہندوستان پر حکومت کی ۔

شاہجہاں بادشاہ نے دہلی کو پایہ تخت بناکر اسے وہ عظمت عطاکی کہ دہلی ہندوستان کادل وجاں بن گیا، دہلی کے بعد اگرکسی ریاست کا نام آتا ہے، تووہ لکھنؤ ہے ۔شاہجہاںکے عہد میں اودھ کے صوبہ دار سلطان علی شاہ کے دو بیٹوں فاضل اور منصور نے چوک کے مغرب میں فاضل نگر اور منصور نگر محلے آباد کئے ۔ لکھنئو کی سرزمین کو بھی کتنی فوجیں بارہا رروندھتی ہوئی آگے بڑھ گئیں ۔ دریا کے دونوں کناروں پر بسا ہوا یہ علاقہ ، اس کی زرخیزی، آب و ہوا اور محل وقوع کے پیش نظر بےشمار قوموں اور قبیلوں نےعارضی پڑا ؤڈالا،لیکن بعد ازاںیہاں مستقل طور پر بس گئے اور ارض لکھنئوکو سینے سے لگا لیا ۔

لکھنو میں ایرانی نزاد نوابین اودھ نے راج کیا۔ گیارہ(۱۱) نوابوں نے اسے ایسی ترقی دی کہ ساری دنیا میں شہرہ ہوگیا۔ مشرقی تمدن کا آخری نمونہ اپنے دھندلے نقوش کے ساتھ آج بھی جلوہ گر ہے۔

لکھنؤ کی تہذیب وثقافت کی داغ بیل دنیا کے دوسرے حاتم زماں نواب آصف الدولہ کے زمانے میںیعنی ۱۷۷۵ء ؁ میں پڑی، اس دوران ایرانی، تورانی، خاص طور سے دہلی سے آکر لوگ یہاں بسنےلگے، اس وقت لکھنؤ ہمہ جہت ترقی کی راہوں پر گامزن تھا، اس کی وضعداری اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھیں، یعنی ہمدردی ، ایمانداری، حیا، سخاوت، قناعت، قوت برداشت ، خود داری، محنت، وقت کی قدر وقیمت وپابندی، سچائی ، لکھنؤ کے عوام وخواص میںشرافتِ لباس زندگی کے ہر شعبے میں سرائیت کر گئی تھی اور یہ سب کچھ اپنے عروج پر پہنچ کر واجد علی شاہ کے زمانے تک قائم رہا، یہ عرصہ لکھنؤ کے لئے ایک حسین خواب سے کم نہ تھا، اس فضا کو سنوار نے میں صدیوں کی محنت اورکاوش درکارتھی، جب شیخوںکا غلبہ ہوا تو یہ تعلقے جوں کے توں قائم رہے، اور جب نوابین اودھ کا دور آیا تو انھوں نے تعلقہ داروں کے حقوق بحال رکھے، بلکہ صوبہ کی ترقی میں مدد گار کی حیثیت رکھتے تھے، یہ تعلقہ دار موسیقی، آرٹ، ادب کے ساتھ تعمیرات میں بھی دلچسپی رکھتے تھے، اردو ادب کی ترقی بھی اسی زمانے میں اپنے عروج پر تھی، بلکہ یہ کہاجائے کہ اردو زبان اسی دور ثقافت میں پروان چڑھی تو بجا ہوگا۔لکھنؤ کی تہذیب گنگا جمنی تہذیب کے مترادف تھی ۔ ہندو اور مسلمان دوبڑی قومیں،مل کر ایک رنگ ہوگئ تھیں او ر ایک نے دوسرے کی ثقافت کو اپنانے میں کوئی برائی نہ سمجھی اور نتیجتاََ ایک مشترکہ ثقافت کی شکل میںسامنے آئے، یعنی ہندو تعزیہ داری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، اور مسلمان حکمراں سے لےکرعوام تک ہولی، دیوالی، بسنت کےتہواار مل جل کر مناتے تھے، ہر طرف خوشحالی تھی، بڑے بڑے مشاعرے منعقد کئے جاتے تھے، انعام واکرام سے نوازا جاتا، لکھنؤ کی شاعری باقاعدہ ایک دبستان کی حیثیت اختیارکرچکی تھی۔ دہلی کے بعد لکھنؤ ہی ایک جائے پناہ تھی، چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی ان ثقافتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں، جن میں ریاست محمودآباد کا نام سہر فہرست ہے، جس سے شہرۂ آفاق شاعر وادباء وابستہ رہے، جن میں عزیز لکھنوی، ظریف لکھنوی، مرزا محمد عسکری،مانی جائسی، ریاض خیر آبادی، جالب دہلوی، سجاد حیدر پلدرم، اور سجاد حسین وغیرہ کے نام خاص ہیں، تعلقہ دار خود اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔لکھنو کی نشو و نما میں کئی حکمرانوں کی کاوشیں شامل رہی ہیں ۔ اکبر کے عہد میں شیخ عبدالرحیم جونپوری نے جو اودھ کا صوبہ دار تھا، یہاں کی عمارتوں میں رد و بدل کراکے اپنی پانچ بیویوں کے لیے پنج محل تعمیر کرایا ،جو بود میں صفدر جنگ کے عہد میں مچھی بھون کے نام سے موسوم ہوا ۔ شہزادہ سلیم نے مرزا منڈی باغ کی بنیاد رکھی ۔ اودھ کے صوبہ دار جوہر خان کے نائب قاسم محمود بلگرامی نے محمود نگر اور شاہ گنج محلے بسائےاورنگ زیب اجودھیا سے ہوتا ہوا لکھنوآ یا تو اس نے لچھمن ٹیلہ پر ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی جو ٹیلے والی مسجد کے نام سے اب بھی مشہور ہے۔

اہل لکھنو پر ہندو ثقافت سے کہیں زیادہ مسلم ثقافت کی چھاپ دکھائی دیتی ہے، یہاں حکمرانوں نے دیگر فنون کے علاوہ شعر و ادب کی خاص سرپرستی کی، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ رہنے سہنے، لباس اور کھانے پینے کے معاملات میں بےحد نفاست پسند اور شعر و ادب کے دلداہ بن گئے۔ایک وقت ایسا تھا کہ یہاں کے پنواڑی تک شعر کہتے تھے ۔ اور ہر شخص چاہے وہ ایک مصرع تک موزوں نہ کر سکتا ہو لیکن خود کو باذوق ظاہر کرنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ایک عدد تخلص ضرور لگاتاتھا۔لکھنو نے علم و ادب کے میدان میں کئی دور دیکھے ہیں۔

۱۷۷۵ء ؁ سے ۱۸۵۴ء ؁ تک اودھ کا یہ دور اپنی اعلیٰ تہذیب و ثقافت کے لئے دنیا میں مشہور ہوگیا، اس دوران سیاسی حالات سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو نوابین اودھ نے وہ تہذیبی روایات عطا کیں جونہ اس سے پہلے تھیں اور نہ اس کے بعد ا ن کا نشان پایاجاتا ہے۔ نواب آصف الدولہ نے عمارتوں کا سلسلہ قائم کیا، اور آصفی امام باڑہ، اور رومی گیٹ کی تعمیر کرائی، لکھنؤ کو فخر البلاد آصف الدولہ نے بنایا، لکھنؤ باغوں کا شہر کہاجانے لگا۔مسلمانوں کے قیام اور استحکام کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں خاص طور سے شمالی ہند میں ترک، افغان، اور مغلوں نے ،جس تہذیب کا تخم بویاتھا، اسی کا ثمر تھاکہ نوابین اودھ نے اسے تناور بنادیا، آج دنیا میں لکھنؤ بہ نام خوبصورت عمارت ، ہندومسلم یکجہتی اور اعلیٰ ثقافتی کارناموں کے لئے مشہور ہے، رجب علی بیگ سرورکا یہ بیان لکھنؤ پر صاد ق آتاہے۔

سنا ر منواں بھی جس کا خوشہ جبیں ہے

وہ بیشک لکھنؤ کی سرزمیں ہے

آصف الدولہ کے وقت میں ریاست بریلی، لکھنؤ اور الہٰ آباد صرف تین صوبوں میں منقسم تھی ۔سعادت علی خاں کو جب لکھنؤ کا نواب بنایاتو اس کے صلے میں الہ آباد اور کڑا کے علاقے ان سے لے لئے تھے۔

لکھنؤ کی تہذیب ،جسے نوابین اودھ نے سجایا ، سنوارا، وہ در اصل ایرانی تہذیب تھی، جس میں ہندو اور مسلمان تہذیب کے عناصر شامل ہوگئے، سعادت خاں، برہان الملک اودھ کے پہلے صوبے دار کافی تجربے کا ر اور مدبر تھے، انھوں نے اپنے بھانجے اور داماد ابوالمنصور صفدر جنگ کو نائب صوبے دار کا عہدہ دلاکر سرفراز کیا، ان کے لئے شجاع الدولہ نے فیض آباد کو رونق بخشی ، جنگی شادی دل کے بادشاہ کی منھ بولی بیٹی آمنہ الذھرا سے ہوئی تھی، جو اپنے ساتھ کافی جہیز لےکر آئی تھی، جو آئندہ اودھ کی خوشحالی میں معاون ثابت ہوا، امۃ الذھراء کو بہوبیگم، کاخطاب ملاتھا، شجاع الدولہ کے حرم میں سب سے زیادہ مرتبہ بہوبیگم کو حاصل تھا، فیض آباد کی تاریخ میں یہ نام درخشاں ہے، ا ن کا مقبرہ شمالی ہندوستان کی عمارتوں میں نایاب ہے ، مگر لوگوں کی نظروں سےمخفی ہے۔ یعنی ا س کی قدرو قیمت سے بہو بیگم کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جس وقت آصف الدولہ لکھنؤ کو استحکام بخش رہے تھے، اس وقت بھی بہو بیگم کے خزانے ہی ان کے کام آئے، بکسرکی لڑائی میں بھی ا ن کا خزانہ کام آیا،وہ کچھ دنوں آصف الدولہ کے ساتھ لکھنؤ میں بھی رہیں، کہاجاتا ہے کہ ان کی لکھنؤ آمد پر شاہراہوں پر اشرفیاں لٹائی گئی تھیں۔ وہ انگریزوں کی سازشوں کا شکاہوگئیں، ۱۸۱۶ء ؁ میں ان کا انتقال ہوا، اور اسی کے بعد فیض آباد کی رونقیں زوال پذیر ہوئیں۔

بہوبیگم کی ساس یعنی ابوالمنصور صفدر جنگ کی زوجہ نواب بیگم، جنہیں صفدر جہاں بیگم کا خطاب ملاتھا، محل میں انہیں نواب بیگم ہی کہاجاتا تھا، بہت ہوشیار اور اعلیٰ مرتبت خاتون تھیں، آصف الدولہ ان کے بیٹے تھے، ان کی شادی دیوان دلی کے امتیاز الدولہ کی دختر شمس النساء بیگم سے ہوئی تھی، جس میں ۱۷۴۹ء ؁ میں شاہ عالم باد شاہ خود نفس بہ نفیس شریک ہوئے تھے، بیگمات اودھ میں آخری تاجدار اودھ بیگم حضرت محل کا نام بھی درخشاں ہے جو اپنے بیٹے برجیس قدر کی ایک سال تک عہدۂ بادشاہت کی سرپرستی کرتی رہیں، اور جب انگریزوں کی شور ش حد سے بڑھ گئی تو کبھی ہاتھی، اور کبھی گھوڑے پر برجیس قدرکوساتھ لئے ہوئے مورچہ جماتی تھیں، جب ایک شہر ہاتھ سےنکل جاتاتھا تودوسرے شہر کی جانب رخ کرتی تھیں، انھوں نے جنگ ضرور ہاری ،مگرہمت نہیں ہاری تھی۔

انگریزوں کی ریشہ دوانیوں نے اودھ کی سلطنت کو کھوکھلا کرنا شروع کردیاتھا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ برہان الملک سے لےکر سعادت علی خاں تک کا عہد سیاسی اعتبارسے قدرے سکون کا تھا، لیکن بعد میں انگریزوں نے دست دراز یاں، شروع کردی تھیں، دھیرے دھیرے نوابین کے اقتدار کم ہوتے گئے، اور واجد علی شاہ کے دور تک آتے آتے یہ حکومت اپنی بساط کھو بیٹھی، اور صرف تاریخ کے اوراق میں رقم ہوگئی۔

تازہ ترین