مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
ارشادِ ربانی ہے !آ پ ان لوگوں کو خوش خبری سنا دیجئے جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے کہ یقیناً ان کے لئے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔(سورۃ البقرہ ۲۵ ) انسان کی فلاح و کامرانی دو چیزوں پر موقوف ہے (1) ایمان(2) اعمال صالحہ ۔گویا اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی دنیاوی زندگی اور حیاتِ اخروی دونوں کامیاب ہوجائیں تو اس کے لئے لازم شرط ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے مالک و خالق پر بن دیکھے ایمان لائے اور دیگر تمام معبودان باطلہ سے دامن جھٹک کر خالص اللہ مالک الملک کی ذات و صفات کا اس کے تمام تر تقاضوں کے مطابق شعور و ادراک حاصل کرے ، جس کے اظہار اور معرفت کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرامؑ دنیا میں تشریف لائے ‘ بالخصوص ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اس کائنات ہست و بود میں تشریف لا کر انسانیت کو ایمان کی حلاوت سے آشنا کیا اور بندوں کا اپنے رب کے ساتھ تعلق استوار کیا۔
جیسا کہ اوپر بیان کردہ سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سید المرسلین حضرت محمد ﷺکی زبان اطہر سے یہ اعلان کروایا کہ آپﷺ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے کہ جو ایمان لائے یعنی اللہ پر‘ اس کے رسولوں ‘ کتابوں ‘ فرشتوں‘ قضا و قدر اور روز قیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے اور دنیا میں کئے گئے اعمال کی جواب دہی و احتساب پر کہ وہ ان تمام امور پر صدق دل سے یقین کامل رکھتے ہوئے اعمال صالحہ بجا لاتے رہے اور اس بات کا احساس ان کے قلوب و اذہان میں جاگزیں رہا کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے ایمان کی شرط کے ساتھ نیک اعمال کی انجام دہی میں مصروف رہے اور بری باتوں اور برے کاموں سے بچتے رہے ‘جو اللہ کی ناراضی و غضب کا سبب بنتے ہیں ،یعنی وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے ،جس سے معاشرے کے انفرادی و اجتماعی مفاد پر ضرب پڑتی ہو یا کسی قسم کی بے ہودگی ‘بے حیائی ‘ اور انارکی پھیلتی ہو، بلکہ وہ ساری زندگی پاکیزگی ‘ خیر او ربھلائی کے کاموں میں لگے رہتے ہیں ۔ ایسے بندوں کے لئے ان کا رب اعلان کرتا ہے کہ وہ خوش ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کررکھی ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گی جو ان اہل ایمان کے لیے تیارکی گئی ہیں جواعمال صالحہ کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔
عمل صالح کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس کے اندر انسانی اعمال خیر کے تمام گوشے اور جزئیات شامل ہیں ، ہر قسم کے نیک اور اچھے کام داخل ہیں۔ جیسے سچائی‘پاک بازی‘ دیانت داری‘ امانت داری‘ شرم و حیا‘ عدل و انصاف‘ حلم و بردباری‘ رحم و کرم ‘ تواضع و خاکساری‘ احسان‘ عفو ودرگزر‘ایثار‘ اخلاص‘ مودّت و محبت‘ مہمان نوازی‘ تیمارداری‘ بیوائوں اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک‘حاجت مندوں کی حاجت برآری‘ اللہ کی مخلوق کی خدمت اور خالق کی عبادت وغیرہ سب اعمال صالحہ کی مختلف شاخیں ہیں۔ غرض ہر وہ نیک کام جو خالصتاً اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے وہ اعمال صالحہ ہیں۔
قرآن مجید میں ایمان کی قبولیت کے ساتھ جگہ جگہ اعمال صالحہ کا تذکرہ ضرور کیا گیا ہے ۔ جس کا مقصد یہی و اضح کرنا ہے کہ ایمان کےساتھ اعمال صالحہ بھی لازم ہیں ۔ چونکہ اعمال صالحہ کے بغیر ایمان کا اعتبار نہیںہے۔ اسلامی صداقت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ دین افراط و تفریط سے خالی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نجات محض ایمان پر ہی موقوف نہیں رکھی گئی، جیسا کہ عیسائیت میںہے کہ صرف نیکوکاری و تپسیاسے نروان کا درجہ ملتاہے ۔ اسی طرح بعض دیگر مذاہب میں ہے کہ محض اعتقادات کے بل پرنجات قرار دے دی گئی ہے۔اس کے برعکس اسلام نے ایمان اور اعمال صالحہ کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے کہ محض ایمان کے بل بوتے پر کوئی انسان اپنے آپ کو نجات اخروی کا حقدار نہ سمجھ بیٹھے اور دنیاوی زندگی میں یہ سوچ کر کہ میں اللہ پر اس کے تقاضوںکے مطابق ایمان رکھتا ہوں ،شتر بے مہار نہ بن جائے، بلکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگرایک طرف ایمان خالص ہو تو دوسری جانب اس حیاتِ مستعار میں ہر قسم کی برائی‘ بے حیائی اور اللہ ‘ رسول ﷺکی نافرمانیوں سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے ہمہ وقت اعمال صالحہ بجا لاتا رہے ،تب اللہ سے اس کی رحمت کا طلب گار رہے کہ وہ اس بندئہ مومن و صالح کی اخروی زندگی کامیاب و کامران بنا دے۔
درحقیقت اللہ کے یہاں حسب و نسب کی کوئی حیثیت نہیں ،وہاں ایمان و اعمال صالحہ کی قدر و منزلت ہے ۔جس کا ایمان ہر قسم کے شرک کی نجاست سے پاک ہو گا اور اعمال صالحہ موجود ہوں گے، وہی اللہ کامقرب اور حبیب بارگاہ قدسی ہو گا ۔خواہ حسب و نسب کے اعتبار سے کیسا ہی کیوں نہ ہو ۔ قرآن مجید و احادیث مبارکہ سے ایمان اور اعمال صالحہ کی اہمیت و فرضیت واضح ہوتی ہے۔ جیساکہ نوح علیہ السلام کے بیٹے اور لوط علیہ السلام کی بیوی کا حشر بیان کیا گیا کہ وہ عمل صالح نہ ہونے کی وجہ سے خاندان نبوت سے الگ ہو کر غرق آب ہوا تو لوط علیہ السلام کی بیوی خیانت اور غیر صالح عمل کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئی۔ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی شکل و صورت حسب و نسب اور مال و دولت کو نہیں دیکھتا بلکہ ایمان تقویٰ اور اعمال صالحہ ہی کو دیکھتا ہے جو بھی ان دونوںخوبیوں سے متصف ہو گا وہی اللہ کا پیارا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے! ترجمہ! اور جو مرد یا عورتیں کچھ نیک کام کریں، بشرط یہ کہ وہ مومن ہوں تو وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پررائی برابر ظلم نہ ہو گا(سورۃ النساء ۱۲۴ ) اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:ترجمہ! جسے اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے عمل صالح کرنا چاہیے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔(سورۃ الکہف ۱۱۰)
اسی طرح دیگر مقامات پر ایمان اور اعمال صالحہ کے التزام کو واضح کرتے ہوئے ارشادات ربانی یوں ہماری رہنمائی فرماتے ہیں:ترجمہ! اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور اچھے اچھے کام کئے ہیں، یہی لوگ جنتی ہیں اور ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔(سورۃ البقرہ۸۲)ترجمہ! تحقیق جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ کئے اور نماز کو قائم کیا اور زکوٰۃ ادا کی ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر (ثواب) ہے اور نہ انہیں خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے ۔(سورۃ البقرہ آیت ۲۷۷)ترجمہ : جو نیک عمل کرے گا اور وہ مومن بھی ہو تو اسے نہ بے انصافی کا خوف ہو گا اور نہ نقصان کا ڈر ہو گا۔(سورۂ طٰہٰ ۱۱۲)ترجمہ ! جو مومن نیک عمل کرے گا تو اس کی کوشش و محنت کی ناقدری نہ ہو گی اور اس کے اعمال کو ہم لکھنے والے ہیں(سورۃ الانبیاء آیت۹۴)ترجمہ! مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک اعمال کئے تو اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ الفرقان۷۰)
غور فرمائیں کہ ہمار ا رب ہم سے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا تقاضا کس شدومد کے ساتھ فرمارہا ہے۔ یقیناً اعمال صالحہ کی ادائیگی جہاں عبادات کے ذریعہ ممکن ہے، وہیں معاملات زندگی میںاللہ اور رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کی پیروی کے ذریعے امانت‘ دیانت اور ناپ تول پورا کرتے ہوئے دھوکا دہی ‘خیانت‘بدعہدی ‘بداخلاقی سے بچتے ہوئے گویا نیکیوں پر عمل پیرا ہوکر برائیوں سے بچتے ہوئے پوری زندگی گزار دینا ہی دراصل ایمان اور اعمال صالحہ کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ من چاہی زندگی گزارتے ہوئے کفر و شرک اوربداعمالیوں مثلاً ظلم و طغیان بے راہ روی ‘ فحاشی ‘ عریانی‘ بے حیائی ‘ بددیانتی ‘ بداخلاقی ‘بد کرداری اور اللہ اور اس کے آخری پیغمبر سرورِ عالم حضرت محمد ﷺ کی نافرمانیوں سے دامن بھرے ہوئے چاروناچاراس جہان فانی سے عالم بقا کی جانب روانہ ہوں گے اور عذاب قبر بھگتتے جھیلتے مالک حقیقی کے دربار میں حاضر کئے جائیںگے تو ان کی جوحالت ہوگی اس کانقشہ قرآن مجید میں یوں کھینچا گیا ہے:ترجمہ! اور اگر آپ ﷺمجرموں کودیکھیں، جب کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے تو عجیب حالت دیکھیں گے ،وہ مجرم کہیں گے ، اے ہمارے رب، ہم نے دیکھ اور سُن لیا اب دوبارہ دنیا میں ہمیں لوٹا دے کہ ہم دنیا میں عمل صالح کرآئیں اب ہمیں یقین ہو گیا ہے۔ (سورۃ السجدہ ۱۲)
یہ دنیا دارالعمل ہے،اس مختصر سی زندگی میں اگر انسان آخرت کی لامتناہی اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ابدی حیات کی فوزوفلاح اور کامیابی و کامرانی کا خواہاں ہے تو پھر لازمی طور پر اسے ایمان اور اعمال صالحہ کی شرط پوری کرنی ہی ہوگی۔ بصورت دیگر اللہ ورسول ﷺکی بغاوت و نافرمانی اور اعمال و اخلاق کی پراگندگی والی من چاہی زندگی گزارتا رہا تو پھر آخرت کے نقصان و تباہی سے دوچار ہونا اس کا مقدر ٹھہرے گا اور مرنے کے بعد پھر واپس دنیا میں آ کر ایمان و اعمال صالحہ والی زندگی گزارنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لہٰذا نجات اخروی کا دارومدار ایمان باللہ، ایمان بالرسول ﷺ،قیامت، یوم حساب، جنت و دوزخ ،فرشتوں، کتب سماوی بالخصوص قرآن مجید اور قضا و قدر پر یقین کامل رکھتے ہوئے اعمال صالحہ جو قرآن و سنت کی نظر میں بھی مستحسن ہوں ،بجالانے ہوں گے ‘ وہی اللہ کے نزدیک قابل قبول ہوں گے اور نجات کا ذریعہ ثابت ہوں گے ۔اس کے علاوہ ہم محض ایمان پر ہی اکتفا کر لیں اور اعمال صالحہ سے بے خبر رہیں یا اپنے تئیں کسی عمل کو نیک سمجھ کر ساری زندگی کرتے رہیں، لیکن وہ اعمال کتاب و سنت سے متعارض ہو ں،تو وہ برباد ہوں گے اور خدانخواستہ رب کی پکڑ کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کامل ایمان اور اعمال صالحہ کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)