#MeTooمہم نے امریکا میںجس تبدیلی کی بنیاد رکھی ہے، اس کی لہر صفِ اول کے امریکی اسکولز تک پہنچ چکی ہے۔ امریکا کے تعلیمی کیلنڈر کا حالیہ ’گریجویشن سیزن‘ مکمل ہوچکا ہے اور اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال امریکا کے صفِ اول کے 25اسکولز کی 60فیصد گریجویشن تقریبات میں خواتین اسپیکرز کو مدعو کیا گیا ہے۔ صفِ اول کے اسکولز سے مراد وہ کالجز او ر یونیورسٹیز ہیں، جن کے ’اِنڈؤمنٹ فنڈ‘ کی مالیت سب سے زیادہ ہےاور وہ دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلے میں زیادہ نیک نامی رکھتے ہیں۔ ایک غیرملکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق، خواتین کی یہ تعداد گزشتہ دو عشروں میں سب سے زیادہ ہے۔ 2007میں ان اسکولز میں صرف 2خواتین اسپیکرز کو مدعو کیا گیا تھا، جبکہ 23نے مرد اسپیکرز کو مدعو کیا تھا۔ گزشتہ 19سال کے اعدادوشمار کا اوسط نکالا جائے تو ہرسال اوسطً 25فیصد خواتین اور 75فیصد مرد اسپیکرز کو ان اسکولز کی گریجویشن تقریبات میں مدعو کیا گیا ہے۔ تاہم، 2018میں اس رجحان میں یکایک تبدیلی دیکھی گئی اور اسپیکرز میں خواتین کا حصہ بڑھ کر 60فیصد ہوگیا ہے۔ ماہرین اس تبدیلی کو #MeTooمہم کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
امریکا میں، تعلیمی اداروں میں اسپیکرز کو مدعو کرنے کی خدمات فراہم کرنے کے لیے کمپنیاں قائم ہیں۔تعلیمی ادارے، ضرورت پڑنے پر ان کمپنیوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ رچرڈ شیلپ، ایسی ہی ایک کمپنی ’ایگزیکٹو اسپیکرز بیورو‘ کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’حالیہ مہینوں میں خواتین اسپیکرز کو مدعو کرنے کی درخواستوں میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ چاہے وہ گہرے رنگت کی خواتین اسپیکرز ہوں یا گورے رنگت کی خواتین۔ قصہ ء مختصر یہ کہ،’بس مرد اسپیکر نہ ہو‘۔ ہم ان اسکولز کی درخواستوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل کے خزانے کو گہرائی تک کُرید رہے ہیں‘‘۔ رچرڈ شیلپ کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں انھیں 40فیصد درخواستیں خواتین اسپیکرز کے لیے موصول ہوئی ہیں۔
امریکی خبرادارے، ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، یہ خبر آنے کے بعد انھوں نے ان اسکولز کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور اس سال زیادہ خواتین اسپیکرز کو مدعو کرنے کی وجہ پوچھی گئی۔ جواب میں ان اسکولز کی انتظامیہ نے #MeTooمہم کو، اس کی وجہ قرار دینے سے انکار کیا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ، شاید اس مہم کا اثر ان طالب علموں نے لیا ہو، جو گریجویشن تقریب کے لیے مہمانِ خصوصی کو منتخب کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ پسِ منظر دیتے ہوئے، ان اسکولز کا کہنا تھا کہ، گریجویشن تقریب کے لیے بڑی بڑی شخصیات کو مدعو کرنے کا کام ایک سال پہلے شروع کردیا جاتا ہے، کیونکہ معروف شخصیات کو ’شارٹ نوٹس‘ پر مدعو کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بڑی اور معروف شخصیات کو اس لیے مدعو کیا جاتا ہے کہ گریجویٹ ہونے والے اور نئے آنے والے طالب علم، ان اسپیکرز کی شخصیت اور ان کی پُرمغز باتوں کا اثر لیتے ہیں۔ ایسے میں ہر اسکول کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر اسپیکر کو مدعو کرے اور اس مقابلے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی شخصیت کو ایک سے زائد اسکول مدعو کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ تاہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شخصیت صرف ایک ہی دعوت نامہ قبول کرسکتی ہے۔ اسکول انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ ایسی شخصیات محدود تعداد میں دستیاب ہوتی ہیں، جنھیں گریجویشن تقریبات میں مدعو کیا جاسکے، ایسے میں ہر اسکول انہی گنے چنے لوگوں کو مدعو کرنے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے۔
اس سال جن خواتین اسپیکرز کو مدعو کیا گیا ہے، ان کا تعلق، سیاست، کاروبار،ایتھلیکٹس اور آرٹس، سماجی خدمات اور انسانی حقوق سے ہے۔اس سال کی پہلی خاتون اسپیکر، فلم ڈائریکٹر ایوا ڈوورنے تھیں، جنھیں نیویارک کی ’کارنیل یونیورسٹی‘ کی گریجویشن تقریب میں بطور اسپیکر مدعو کیا گیا۔ وہ گزشتہ ایک عشرے میں گریجویشن تقریب میں مدعو کی جانے والی پہلی گہری رنگت والی خاتون ہیں۔امریکی بحریہ کی وائس ایڈمرل راکیل بونو دوسری خاتون اسپیکر تھیں۔ انھیں یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن نے مدعو کیا۔ گزشتہ سال ہیلری کلنٹن نے ویلیسلی کالج میں خطبہ صدارت دیا تھا، جبکہ اس سال یہ اعزاز ’ییل یونیورسٹی‘ کو حاصل ہوا۔ اداکارہ مِنڈی کیلنگ کو ’ڈارٹ مُتھ کالج‘نے مدعو کیا۔MITنے فیس بک کی چیف آپریٹنگ آفیسر شیریل سینڈبرگ، وینڈربِلٹ یونیورسٹی نے اَمل کلونی،جبکہ ’رَٹ جرز یونیورسٹی‘ کوئین لطیفہ کو مدعو کرنے میں کامیاب رہی۔ ایننبرگ فاؤنڈیشن کے حصے میں اوپرا ونفری جبکہ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کا قرعہ فال صحافی آندرے مشل کے نام نکلا۔
سیلیبرٹی اسپیکرز کو مدعو کرنا اتنا آسان بھی نہیں۔ اس کی ایک قیمت ہوتی ہے، جوکہ اکثر 1لاکھ ڈالر سے زائد ہوتی ہے۔ ایسے میں کئی اسکولز اپنے فارغ التحصیل گریجویٹس یا ایسی شخصیات کو مدعو کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو، بلامعاوضہ آنے کو تیار ہوں۔
صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق، امریکا کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں نے زیادہ سے زیادہ خواتین اسپیکرز کو مدعو کرنے اور انھیں مردوں کے مساوی نمائندگی دینے کے سلسلے میں اچھی پیش رفت کی ہے۔ تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ آنے والے برسوں میں اس رجحان کو برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔