پروفیسر (ر) بیگم سراج
’’نوجوانو! تم ہو پاکستان، ہمارا مستقبل، ہمارا اثاثہ ٔ‘‘ یہ اقرار پاکستان کی قومی پالیسی 2014 کی دستاویز کا حرف آغاز تھا۔ اس کے بعد سے شور بلند ہوتا رہا کہ نوجوان ہمارا کل ہیں، آج انہیں نظرانذاز کیا گیا تو کل ہمارا بد سے بدتر ہو گا۔ اسی لئے تو دنیا بھر میں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بہتر استفادہ کی ہر ممکن سعی کی جاتی ہے اور ان کے لئے ایسی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں جو ان کے لئے سود مند ثابت ہوں۔
اقوام متحدہ 15سے 24سال کے ایج گروپ کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے، جب کہ پاکستان دولت مشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے ایج گروپ 15سے 29 سال کو نوجوانوں کی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔ لیکن گروپ کوئی بھی ہو، پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے، نیز اقوام متحدہ کی مقرر کردہ ایج کروپ کے مطابق دنیا میں 15ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب 30.7 فی صد ہے۔ پاکستان اس تناسب کے حوالے سے دنیا بھر میں 16ویں نمبر پر ہے۔
یوایس سینسز بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 2014تک پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد اقوام متحدہ کے ایج گروپ کے مطابق 42.26 ملین اور دولت مشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے ایج گروپ کے مطابق 60.13 ملین تھی، اب اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہو گا۔ اس کے باوجود ان کے مسائل، تعلیم، صحت پر کبھی توجہ نہیں کی گئی لیکن جیسے ہی ووٹر کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی، ملک کے سیاسی منظر نامے میں ان کی اہمیت دو چند ہو گئی۔ سیاسی جماعتوں کے منشور میں ان کے بہتر مستقبل کا ذکر اور ان کے لئے یوتھ پروگرام، اسکیمیں شروع کرنے کے وعدے کیے جانے لگے، کیوں کہ سیاسی جماعتوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ نوجوان ووٹرز ہی انہیں ایوان میں پہنچا سکیں گے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں نعرے لگے، نوجوانوں آگے بڑھو، نیا پاکستان تم بنائو گے۔ یہ واضح کر دیں کہ، 2013 ء کےانتخابات میں ملک کے رجسٹرڈ ووٹرز کا 35 فی صد 18 سے 30 سال کی عمر کے حامل ووٹرز پر مشتمل تھا۔
ووٹر فہرستوں 2013ء میں ملک کے 18سے 25 سال کی عمر کے تقریباً 55 فی صد نوجوانوں اور 18 سے 30 سال کی عمر کے تقریباً 62 فی صد نوجوان شامل تھے، ان کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہر سیاسی جماعت نے انہیں اہمیت دی۔ ان سے وعدے و عید کئے لیکن ان کے لئے قابل ذکر پروگرام پیش نہیںکئے گئے اور نہ ہی تعلیم، صحت، روزگار کے حوالے سے بجٹ میں زیادہ رقم مختص کی گئی۔ نوجوانوں کے معاشی مسائل حل کرنے اور معیاری تعلیمی سہولتیں تک ان کی رسائی کو یقینی بنانےکے حوالے سے وزیراعظم یوتھ پروگرام کا آغا کیا گیا لیکن نوجوانوں کی رائے کو شامل نہیں کیا گیا، جو ضروری تھا۔
گرچہ یوتھ پارلیمنٹ کی صورت میں ملک میں نوجوانوں کا ایک فورم ہے لیکن اسے قومی فیصلہ سازی کے عمل سے جوڑا نہیں گیا، جو ضروری ہے، تاکہ ان کی رائے کو شامل کیاجا سکے۔ اس وقت وہ دو راہے پر کھڑے ہیں۔ انہیں نہ روزگار کی سہولتیں میسر ہیں، نہ تعلیمی اور نہ ہی طبی۔ جن نوجوانوں کو مواقعے مل رہےہیں وہ اپنے بہتر مستقبل کی خاطر بیرون ملک جا رہے ہیں، جو ان کے لئے تو بہتر ہے لیکن ملک کو نقصان دہ اور نقصان ہو رہا ہے ۔کیا اس کا ازالہ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد ہو سکے گا۔
یعنی جو سیاسی جماعت اقتدار میں آئی، وہ ان کے لئے کچھ کرے گی ۔اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ نوجوان مناسب روزگار کے مواقعوں کی کمی سے غلط سمت پر جل پڑے ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز، چوریاں، ڈکتیاں، اغوا برائے تاوان، کی وارداتوں میں اضافہ اور منشیات استعمال ان کا مستقبل تاریک کررہا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں نوجوانوں کی اہمیت کا تو اندازہ ہے لیکن کیا کام یابی کے بعد ان کے لئے کچھ کریںگے یا پانچ سال تک خود سیر سپاٹے کرتے رہیں گے اور وعدے بھول جائیں گے۔
اگر ایسا ہوا تو یہ بھول انہیں بہت مہنگی پڑے گی ، کیوں کہ اب سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب نوجوان قائد اعظم کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ نوجوان نسل اس حوالے سے اہم فیصلہ ساز ہو سکتی ہے، کیوں کہ لگ بھگ 40فی صد نوجوان 18سال سے زائد عمر کے ہیں، جو ووٹ ڈال سکتے ہیں اور انہیں ڈالنا چاہیے۔ نوجوانو!سوچ لو تم ہی ہو پاکستان، تمہارے ہی ووٹوں سے وزارت کا تالا کھولا جائے گا۔