• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصنوعی ذہانت مستقبل کی ٹیکنالوجی

مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کمپیوٹرسائنس کا ایک ایسا ذیلی شعبہ ہے، جس میں ذہانت (یا فہم)، سیکھنے اور کسی صلاحیت کو اپنانے سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔

مستقبل کی پیش گوئی کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ڈاکٹر رے کروزویل کا کہنا ہے کہ 2045ء تک دنیا ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوجائے گی، جب مشینیں عقل اور جدت طرازی میں انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی۔ کروزویل وہ مستقبل بین ہیں، جن کی ماضی میں کی گئی 86 فی صد پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔کروزویل کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت ہمارے دماغ کو الیکٹرانک سرکٹ سےمنسلک کردے گی، جو جسمانی خلیوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہونگے۔ 2030ء کی دہائی تک ہم انسانی دماغ اور شعور کو الیکٹرانک میڈیم سے نقل کرنے کے بھی قابل ہوجائیں گے۔

بنیادی طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’اے آئی‘ انسانی دماغ کو بائے پاس کرکے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور پھر عمل کر دِکھانے والی مشین تیار کرنے کی سائنس ہے۔ نصف صدی کے اس سفر میں تیز تر تحقیق کا یہ عالم ہے کہ آج انسان مصنوعی انسانی دماغ ’اِ مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی‘ کی تخلیق کے منصوبے کا آغاز کر چکا ہے۔مصنوعی ذہانت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو بامِ عروج پر پہنچانے کی ایک انسانی کاوش ہے۔ اسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا نام دینے والے سائنس دان جان میک کارتھی نے اس نووارد مضمون کو ایسی مشینیں بنانے کی سائنس قرار دیا تھا، جو ذہانت رکھتی ہوں۔ اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے اسٹورٹ رسل اور پیٹر نوروِگ نے اس پر اپنی کتاب میں مشینوں کی جگہ پہلی دفعہ ’انٹیلی جنٹ ایجنٹس‘ کی اصطلاح استعمال کی، یعنی ایسے ایجنٹس جو پوری طرح اپنے ماحول کو سمجھنے اور پَرکھنے کی صلاحیت کےحامل ہوں تاکہ ماحول از خود ان سے برتاؤ کر سکے، جس سے ناصرف انسان کے کام کرنے کی رفتار بڑھ جائیگی بلکہ آخری حد تک دُرست نتیجے کا حصول بھی ممکن ہوجائیگا۔

یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانی تاریخ کا دوسرا بڑا انقلاب اور سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے لیےچار بنیادی 'مکاتبِ فکر سے واقفیت ضروری ہے۔ پہلے مکتبِ فکر کے روحِ رواں رسل، نوروِگ اور جان ہاگلینڈ ر ہیں، جن کے مطابق اے آئی کا اصل مقصد ایسی مشینوں کی تیاری ہے، جو بالکل انسانوں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی قدرت رکھتی ہوں۔

دوسرے مکتبِ فکر کا لبِ لباب یہ ہے کہ اے آئی کے ذریعے مشین کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ نا صرف پوری طرح اپنے ماحول کو سمجھتے ہوئے ردِ عمل دے سکے، بلکہ سیکنڈوں میں انسان کے حسبِ خواہش افعال بھی سر انجام دے سکے، جس کی ایک قابلِ ذکر مثال روبوٹس ہیں، جو ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی سے اس قابل ہو گئے ہیں کہ فوری فیصلہ کر سکیں مگر اب بھی ان کے افعال بہت حد تک ' قابلِ پیشگوئی ہیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹرز ساکن تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے متعلقہ شخص یا جگہ کے متعلق ویژوئل انفارمیشن فراہم کرتے ہیں، یہ بھی ذہین مشینوں کی ایک جہت ہے۔ اے آئی کے تیسرے مکتبِ فکر کا تعلق انسانی دماغ کو تسخیر کرنے کی صلاحیت سے ہے، یعنی ایسے ماڈلز بنائے جائیں، جن کے ذریعے انسانی دماغ کو سمجھا جا سکے اور یہ جانا جا سکے کہ دماغ اپنے ماحول، ارد گرد بسنے والے افراد اور روز مرہ کی ان اشیاء کو کس طرح سمجھتا ہے؟ جب کہ آخری مکتبِ فکر ان تیکنیکس سے متعلق ہے، جن سے مشین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ انسان سے بہتر اور کئی گنا زیادہ نتائج دے سکے۔ اس کی ایک مثال انٹرنیٹ پر میسر مختلف سرچ انجنز ہیں۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو تیسرے اور چوتھے مکاتبِ فکر کی تمام تر اساس ہمارا دماغ مسخر کرنے کی صلاحیت پر ہے اور بلاشبہ دماغ انسانی جسم کا پیچیدہ ترین عضو ہے جس کے افعال اور اس کے مکینزم کو پوری طرح سمجھنا اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔

گوگل سرچ، آئی بی ایم واٹسن، جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ، صنعتوں، معاشیات و سوشل میڈیا، غرض یہ کہ اب ہر جگہ اے آئی کا سکہ چلتا نظر آتا ہے۔ گزشتہ 50برس میں جو ایجادات اور تحقیقی مواد سامنے آیا ہے، وہ ایک حد تک ’کمزور یا محدود ذہانت‘ کا حصہ تھا، جیسے کہ چہرہ پہچاننا، یا انٹرنیٹ سرچ انجن، جن کے ذریعے ہم انتہائی کم وقت میں اپنے کام کو بھرپور طریقے سے سر انجام دینے کے قابل ہو گئے ہیں۔

محققین کے لیے یہ اے آئی کی کم ترین سطح ہے، کیوں کہ ان کا اصل پروگرام ٹیکنالوجی کو اس حد تک لے کر جانا ہے کہ مشین انسان کے آپریٹ کیے بغیر از خود کام سر انجام دینے کی اہلیت کی حامل ہو، جس کی ایک مثال ہیومنائڈ یا انسان نما روبوٹس ہیں، جن پر 1995ء سے کام کیا جارہا ہے اور اب تک ایسے لاکھوں کی تعداد میں روبوٹس متعارف کروائے جا چکے ہیں جو مشینوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی اچانک رونما ہونے والی خرابی اور ہنگامی صورتحال سے مؤثر طریقے نمٹ سکتے ہیں۔

اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہماری زندگی میں اے آئی کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ انسان کی اہمیت کو گھٹا کر مشین کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لوگ ٹیکنالوجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اپنی ذاتی خداداد صفات پر انحصار ترک کرتے جا رہے ہیں۔

معروف برطانوی مفکر اور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ، مصنوعی ذہانت کو انسانیت کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اس طرح ترقی دی جائے کہ وہ انسانیت کی صحیح خدمت گار کے طور پر ترویج پائے ناکہ اِسے انسانی دماغ اور ذہانت کو مات دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔

تازہ ترین