• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچوں کا روشن مستقبل والدین کا کردار

بچوں کو اچھی پرورش دینا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے والدین کو اچھی تیکنیک سیکھنے کے ساتھ ساتھ بُری عادتوں سے بھی جان چھڑانا پڑتی ہے۔ اگر بچوں کی پرورش میں غلطیاں کی جائیں تو اس سے بچوں کی سماجی، جسمانی، جذباتی اور دانشمندانہ ترقی و ترویج رُک جاتی ہے۔ اس کے برعکس، جن بچوں کے ذہن میں اپنے والدین سے متعلق مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے، ان کی شخصیت میں نِکھار پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں سبھی والدین کا ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ، ’ہم ایسا کیا کریں کہ ہمارے بچے زندگی میں کامیاب انسان بن سکیں؟‘ محققین مندرجہ ذیل جوابات کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

بچوں سے گھر کے کام کاج کروائیں

’ہاؤ ٹو رَیز اَین اَیڈلٹ‘ کی مصنفہ اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی سابقہ ڈین جولی لیتھکوٹ ہیمز کہتی ہیں، ’اگر آپ کے بچے اپنے برتن خود نہیں دھو رہے تو یقیناً ان کے لیے یہ کام کوئی اور کررہا ہے، اس طرح وہ ناصرف اس ذمہ داری سے مبرا ہوجاتے ہیں بلکہ انھیں یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ بھی کوئی کام ہے۔ انھیں یہ احساس دِلائیں کہ گھر کی اجتماعی بہتری اور انتظام کے لیے ہر فرد کو تھوڑا بہت اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔‘

سماجی زندگی کی مہارتیں سِکھائیں

پنسلوانیا اور ڈِیوک یونیورسٹی نے امریکا کے 700 بچوں کی زندگیوں کو کنڈرگارٹن سے لے کر 25سال کی عمرتک مانیٹر کیا اور دو دہائیوں بعد ان کے کنڈرگارٹن کی عمر میں سوشل اسکلز (سماجی زندگی کیلئے درکار مہارتیں)اور بلوغت کے زمانے میں کامیابی کے درمیان تعلق قائم کرنیکی کوشش کی گئی۔20سالہ تحقیق میں محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ بچے جوکنڈرگارٹن کی عمر میں اپنے ہم عصر بچوں کے ساتھ تعاون کرتے تھے، اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کرتے تھے، ان میں 25سال کی عمر کو پہنچنے تک کالج ڈگری مکمل کرنےاور ’فُل ٹائم‘ نوکری حاصل کرنے کے امکانات زیادہ دیکھے گئے۔ رابرٹ ووڈ جانسن فاؤنڈیشن کے پروگرام ڈائریکٹر کِرسٹن اسکوبرٹ کہتے ہیں، ’’اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے صحت مندانہ مستقبل کیلئے جو سب سے اہم کام کرسکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم ان میں ’سوشل‘ اور ’ایموشنل‘ اسکلز پروان چڑھائیں۔‘‘

بچوں سے اعلیٰ درجے کی توقعات رکھیں

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر نِیل ہالفون اور ان کی ٹیم نے سن 2001ء میں پیدا ہونے والے 6,600بچوں پرتحقیق کی۔ تحقیق میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بچے وہی کچھ حاصل کرتے ہیں، جس کی والدین ان سے توقعات رکھتے ہیں۔

خاندانی مسائل کا منفی اثر

ایسا خاندان جہاں والدین میں علیحدگی اور دیگر مسائل پائے جاتے ہیں، ان خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچےدیگر خاندانوں کے مقابلے میں بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جہاں بچے اور والدین ایک مثبت سوچ کے ساتھ خاندان کی شکل میں رہتے ہیں۔ یونیورسٹی آف اِلانوئے کے ڈپارٹمنٹ آف ہیومن اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کے ہیڈ، پروفیسر رابرٹ ہیئوزکہتے ہیں کہ والدین میں علیحدگی سے پہلے کے مسائل کا بچوں پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم کےلیےتیارکرنا

یونیورسٹی آف مشی گن کی ماہرِ نفسیات ساندرا ٹینگ کی 2014 ء کی ایک تحقیق کے مطابق، وہ مائیں جنھوں نے ہائی اسکول یا کالج کی تعلیم مکمل کی ہوئی ہوتی ہے، وہ اپنے بچوں کی بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انھیں اس کے لیے تیار کرتی ہیں۔

بچوں کو شروع سے میتھس سِکھانا

2007ء میں امریکا، کینیڈا اور برطانیہ کے 35,000بچوں (جن کی ابھی اسکول جانے کی عمر نہیں ہوئی)سےکیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ اسکول جانے کے قابل بننے کی عمر سے قبل، بچوں کو سِکھائی گئی میتھس، ان کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔نمبر، نمبروں کی ترتیب اور میتھس کے دیگر بنیادی کانسیپٹس سیکھنے سے، بڑے ہوکر وہ ناصرف میتھس کے مضمون میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ان کی مجموعی کارکردگی بھی دیگر طالب علموں سے کہیں بہتر رہتی ہے۔

بچوں کا انتہائی خیال رکھیں

2014ء میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ وہ بچےجن کے والدین ان کی پیدائش کے ابتدائی 3برس تک، انتہائی حساس انداز میں ان کا خیال رکھتے ہیں اور انھیں خوب توجہ دیتے ہیں، وہ ناصرف بچپن میں اسکول میں بہتر کارکردگی دِکھاتے ہیں بلکہ بڑے ہوکر بھی ان کی کامیابیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ والدین کو کم از کم ابتدائی 3برسوں کے دوران اپنے بچوں کی ہر بات کا فوری اور مناسب جواب دینا چاہیے اور انھیں ایک ایسی مضبوط بنیاد فراہم کرنی چاہیے، جس پر کھڑے ہوکر وہ اپنے لیے دُنیا تلاش کرسکیں۔

’نو۔اسکرین ٹائم‘ لاگو کریں

تحقیق سےثابت ہواہے کہ وہ بچے جو اسمارٹ فون اور ٹیبلٹس میں بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان کی ذہنی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ ایسے بچوں میں توجہ ایک جگہ پرمرکوز رکھنے، الفاظ کا ذخیرہ بنانے اور ’سوشل اسکلز‘ سیکھنے کی صلاحیتیں کم پروان چڑھتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق، 18ماہ تک کے بچوں کو اسکرین بالکل نہیں دِکھانی چاہیے، ماسوائے مختصر ویڈیو چیٹ کے۔

دو سے پانچ سال تک کے بچوں کا اسکرین ٹائم ایک گھنٹے تک محدود رکھنا چاہیے،جبکہ 5سال سے بڑے بچوں میں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسکرین ٹائم ان کی ضروری نیند، ایکسرسائز اور سماجی روابطہ پر اثرانداز نہ ہو۔

اس کے علاوہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کتابیں پڑھنےاور فیملی ڈِنر کے لیے روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے وقت نکالا کریں۔

تازہ ترین