• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیمبرج یونیورسٹی پر ایک نظر

انگلستان کی قدیم کیمبرج یونیورسٹی دریائے’ کیم‘ کے کنارے واقع ہے، جس کی مناسبت سے اسے کیمبرج یعنی دریائے کیم کے پل کے نام سے موسوم کیا گیا۔ دنیا بھر میں مشہور یہ یونیورسٹی 1231ء میں بادشاہ ہنری سوئم کی منظوری سے قائم ہوئی۔ انگریزی زبا ن میں تعلیم دینے والی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں دوسرے اور تاحال سہی حالت میں رہنے والی قدیم یونیورسٹیوں میں چوتھے نمبرپر ہے ۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوںمیں کئی قدریں مشترک ہونے کی بناء پر ’’ آکسبرج ‘‘ کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔

1854ء تک کیمبرج اورآکسفورڈ یونیورسٹی کے دروازے عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے(جوچرچ آف انگلینڈ کے 39 اصولوں پر ایمان نہ لاتے ہوں) سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بند تھے۔ 1871ء تک ان دونوں یونیورسٹیوں میں اس فرقے کے کسی فرد کوکسی قسم کا امتیاز یا وظیفہ تعلیم بھی نہیں مل سکتا تھا۔

کیمبرج یونیورسٹی میں طویل عرصے تک لڑکیوں کا داخلہ بھی ممنوع رہا۔ 1869ءمیں یہاں لڑکیوں کا پہلا کالج قائم ہوا اوروقت گزرنے کے ساتھ اب یونیورسٹی میں تین ایسے کالج ہیں جہاں صرف لڑکیوں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔

اس یونیورسٹی کے الحاق میں 31 کالج اور 100 سے زائد تدریسی شعبے ہیں۔ ’کیمبرج یونیورسٹی پریس‘ دنیا کا قدیم ترین اشاعتی ادارہ اور دوسرا بڑا یونیورسٹی پریس ہے۔ یہاں 8 ثقافتی اور سائنسی میوزیم ہیں، جن میں فٹزولیم میوزیم اور بوٹینک گارڈن سب سے زیادہ معروف ہیں۔ کیمبرج کی لائبریریوں میں تقریاََ ڈیڑھ کروڑ کتابیں موجودہیں، صرف کیمبرج یونیورسٹی لائبریری میں ہی80 لاکھ کتابیں ہیں ۔  

31 جولائی 2016ء کوختم ہونے والےمالی سال میںیونیورسٹی کی کل آمدنی 1.64 بلین پائونڈ تھی ، جس میں 462 ملین پائونڈ صرف ریسرچ گرانٹس اور کنٹریکٹس کی مد میں حاصل ہوئے تھے۔ مرکزی یونیورسٹی اورتمام کالجز کی کل آمدنی 6.3بلین پائونڈ تھی ، جو امریکا کے علاوہ دنیابھرکی کسی بھی یونیورسٹی کی سب سے زیادہ حاصل کردہ آمدن تھی۔

ستمبر 2017ء میں کیمبرج یونیورسٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوںکی درجہ بندی میں  دوسرے نمبر پر تھی۔ اس یونیورسٹی سے بیسیوں نامور شخصیات نےفیض حاصل کیا جن میں 116 نوبل انعام یافتہ ،10 فیلڈ میڈلسٹ، 6 ٹرننگ ایوارڈ یافتہ اور 15 برطانوی وزرائے اعظم شامل ہیں۔

مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والےجیّد اسکالرز نے بھی یہاں قدم رنجہ فرمایا، جن میں سرآئزک نیوٹن کا نام بھی آتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے کئی تجربات اسی درسگاہ کے ٹرینٹی کالج میں کیے۔ سائنسی طریقہ میں بہتر ی لانے والے سر فرانسز بیکون صرف 12 سال کی عمر میں یہاںداخل ہوئے، جن کے کام کو جون ڈی اور بروک ٹیلر نے آگے بڑھایا۔ معروف ماہر حیاتیات چارلس ڈارون نےبھی کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لینےکی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔

یہاںتعلیم حاصل کرنے والے 15 برطانوی وزرائے اعظم میں رابرٹ وال پول بھی شامل ہیں ،جنھیں برطانیہ کا پہلا وزیر اعظم گردانا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ 30 ممالک( بشمول بھارت، آئرلینڈ، زیمبیا، جنوبی کوریا، یوگنڈا، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو، برما، پاکستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، پولینڈ، آسٹریلیا، فرانس ، سنگا پور، تھائی لینڈ، ملائشیا اور اردن کے سربراہانِ مملکت یا وزرائے اعظم یہاں کے دریائے علم سے سیراب ہو چکے ہیں۔ شاہی شخصیات کی بات کی جائے تو برطانیہ کے ایڈورڈ ہفتم اور جارج ششم ، یوگوسلاویہ کے پیٹر دوم، کوئن آ ف ڈنمارک مارگریٹ دوم، اور اسپین کی ملکہ صوفیہ بھی شامل ہیں۔

عظیم سائنسدان اسٹیفن ولیم ہاکنگ نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی تھی، گزشتہ سال جب ہاکنگ کے ڈاکٹریٹ کے مشہور مقالے کو یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ڈالا گیا تو اسے پڑھنے والوں کے رش کے باعث ویب سائٹ بیٹھ گئی ۔کیمبرج یونیورسٹی نے پہلی بار پروفیسر ہاکنگ کا مشہور مقالہ ’’پراپرٹیز آف ایکسپنڈنگ یونیورسز‘‘(مسلسل پھیلنے والی کائناتوں کی خصوصیات) اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا، جس پر انھیں 1966ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی تھی۔یونیورسٹی کے مطابق پروفیسر ہاکنگ کا یہ مقالہ یونیورسٹی کی لائبریری میں سب سے زیادہ طلب کیا جاتا تھااور اس کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پروفیسر ہاکنگ کی اجازت سے یہ مقالہ آن لائن جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

مقالہ اپ لوڈ ہوتے ہی لگ بھگ 60 ہزار افراد نے اسے پڑھنے کی کوشش کی، جس کے باعث کیمبرج یونیورسٹی کی ویب سائٹ فوراًبیٹھ گئی اوربحالی کے بعد بھی لوگوں کے مسلسل رش کے باعث سارا دن یونیورسٹی کی ویب سائٹ بار بار بند ہوتی رہی۔اپنے اس مقالے میں اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کے آغاز اور اس کے مسلسل بڑھنے اور پھیلنے سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا تھا، جو آج بھی کافی مشہور ہے۔اپنے مقالے کے آن لائن اجرا ءکے موقع پر پروفیسر ہاکنگ نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ دنیا بھر میںان کے اس مقالے کو پڑھنے والے افراد اپنے قدموں کو دیکھنے کے بجائے اوپر نظریں اٹھائیں گے اور آسمان پر دمکتے ستاروں کو دیکھیں گے اور اس وسیع کائنات میں اپنے مقام پر غور و فکر کریں گے۔

تازہ ترین