• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ نیوز

ہم غریبوں کی جس بستی میں رہتے ہیں اس میں ایک کریانہ اسٹور کا مالک، ایک پیش امام، ایک نان کوالیفائیڈ ڈاکٹر اور ایک کباڑیئے کو نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ انہیں علاقے میں خصوصی اہمیت بھی حاصل ہے۔ پیش امام اور نان کوالیفائیڈ ڈاکٹر کو ’’پیشے‘‘ کی وجہ سے اور کریانہ اسٹور کےمالک اور کباڑیئے کو ’’پیسے‘‘ کی وجہ سے یہ مقام حاصل ہے۔

ان شخصیات میں ہمیں کباڑیئے کی شخصیت بہت پسند ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ غریبوں کے مسائل پر دل اور پیٹ میں درد محسوس کرتے ہیں۔ دنیا بھر کا کاٹ کباڑ جمع کرکے پیسہ بنانا ان کا پیشہ تو ہے ہی لیکن وہ پیشہ ور سیاست دان بننےکے شوقین بھی ہیں۔ ان کی شخصیت پر مذہبی رنگ بہت گہرا ہے۔ان کے خیال میں الیکشن کے موقع پر ’’مذہبی رنگ‘‘ بہت کام آتا ہے۔ وہ پیشہ ور سیاستدان کی طرح ہر وقت الیکشن لڑنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔پہلے پہل علاقے کےبعض غیرپڑھے لکھے لوگ الیکشن کو ان کا جڑواں بھائی تصور کرتے تھے۔

موصوف کا نام نامی ’’حاجی نمازی منے خان‘‘ہے۔ البتہ بعض لوگ انہیں حاجی کے بجائے ’’ہاں جی‘‘کہہ کر بھی مخاطب کرتے ہیں۔ وہ حاجی کے ساتھ ساتھ نمازی کے اضافے کو بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حج ایک عبادت ہے جس کی مناسبت سے حاجی پکارا اور لکھا جاتا ہے، جبکہ نماز ایک علیحدہ عبادت ہے اس لئے حاجی کے ساتھ ساتھ نمازی کا استعمال بھی ضروری ہے۔ ان کے خیال میں اس طرح ان کی مذہبی حیثیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہم نے انہیں ایک بار یہ تجویز پیش کی تھی کہ اگر وہ زکواۃ ادا کرتے ہیں تو اپنے نام میں حاجی نمازی کے ساتھ ساتھ ’’ذکاتی‘‘ کا اضافہ بھی کرلیں اوراگر خیرات ادا کرتے ہیں تو ’’خیراتی‘‘ کا اضافہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن انہیں ہماری یہ تجویز پسندنہیں آئی، لہٰذا آپ موصوف کو دو عبادات کے حوالے کے ساتھ منے خان ہی لکھ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔

موصوف اپنے بزرگوں کے پیشے کے باعث بچپن ہی سے مالی طور پر مستحکم رہے ہیں،کبھی وہ دولت سے کھیلتے رہے ہیں اور کبھی دولت ان سے کھیلتی رہی ہے۔ روپے پیسے کی فراوانی نے ان میں سرمایہ دارانہ سوچ پیدا کردی ہے۔اپنے بزرگوں کی طرح سرمایہ دارانہ سوچ رکھنے کا انہیں ایک فائدہ یہ ہواکہ انہوں نے تعلیم جیسے غیرسرمایہ کارانہ عمل سے اسی طرح گریز کیا جس طرح  ہماری قوم کی اکثریت اس سے گریزاںہے لیکن آپ ان کی گفتگو سن کر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ وہ ملکی اور غیرملکی سیاست پر فرفر گفتگو کرتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ’’فائنانشل ٹمپریچر‘‘نے ان میں فلسفیانہ اپچ بھی پیدا کردی ہے۔

حاجی نمازی منے خان کو سیاسی بخار چڑھنے سے پہلے علاقے میں سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور تصاویر میں ان کے نام کے ساتھ باقاعدگی سے ’’ممتاز سماجی رہنما‘‘ لکھا جاتا تھا۔ موصوف کی سماجی خدمات سے انکارممکن نہیں، البتہ ان کی سماجی خدمات کا دائرہ ڈپٹی کمشنر، ایس ڈی ایم، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او تک محدودرہا ہے۔ متعدد بڑے ’’سرکاری افسران‘‘نے انہیں کئی مواقعوں پر ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ، شیلڈز اور اسناد پیش کی ہیں، جو انہوں نے ایک شوکیس میں سجاکر اپنے ڈرائنگ روم میں رکھی دی ہیں، تاکہ لوگوں پر ان کا رعب پڑسکے اور بوقت ضرورت کام آسکیں۔

سرکاری افسران سے دوستانہ تعلقات اور بڑھتے ہوئے سماجی رابطوں نے ان میں قائدانہ انداز پیدا کردیئے ہیں، بقول ان کے ان کے دوست احباب نے ان کے قائدانہ انداز اور ان کی سماجی خدمات سے متاثر ہوکر انہیں سیاست میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔ ان کی یہ مجبوری قوم کو بہت مہنگی پڑی۔ قوم کئی سال سے انہیں بھگت رہی ہے۔ لیکن حاجی نمازی منے خان ہیں کہ سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جب تک اپنا مشن یعنی اسمبلی کی رکنیت کا حصول پورا نہیں کرلیتے، انتخابات میں حصہ لیتے رہیں گے۔

پہلے پہل لوگ الیکشن میں ان کے حصہ لینے پر اس طرح ناک منہ بناتے تھےجس طرح ہم اس کھانے کودیکھ کر منہ بناتے ہیں جو ہمیں پسندنہیں۔ حالانکہ حاجی نمازی منے خان کی شکل لوکی، بینگن، ٹنڈے یا کریلے سے ملتی جلتی نہیں۔ابتدائی الیکشن میں حاجی نمازی منے خان نے اپنی صلاحیتوں کے وہ وہ جوہر دکھائے کہ ان کے حلقہ انتخاب کے لوگ اب بھی ہر الیکشن کے موقع پر اس بات کے منتظررہتے ہیں کہ وہ جلد از جلداپنی الیکشن مہم شروع کردیں، تاکہ لوگ ان کے ’’عالمانہ خیالات‘‘ اور ’’سرمائے کے کمالات‘‘ کا قریب سے مشاہدہ کرسکیں۔الیکشن مہم کے دوران حاجی نمازی منے خان حکمرانوں کی طرح شاہانہ انداز سے زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی مصروفیات کا شیڈول بھی بہت ٹائٹ ہوتا ہے۔ ان سے وفود ملنے آتے ہیں۔ پریس ان کے آگے پیچھے ہوتا ہے۔ جلسوں اور میٹنگوں سے متواتر خطاب کرتے ہیں۔کسی خطرے کے نہ ہوتے ہوئے بھی باڈی گارڈز اپنے ساتھ لازماًرکھتے ہیں۔

وہ الیکشن ہاریں یا جیتیں البتہ الیکشن مہم کے اختتام کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اسمبلی ٹوٹنے کے بعد وزارت عظمیٰ سےسبکدوش ہوکر آئے ہیں۔ بعدازاں وہ الیکشن مہم کے ایام کو اسی طرح یاد کرتے ہیں جس طرح کوئی حکمراں اپنے دور حکومت کو یاد کرتا ہے۔

حاجی نمازی منے خان سیاسی جماعتوں کو ناپسند کرتے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتیں، غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ ہر الیکشن میں  آزاد امیدوارکی حیثیت سے حصہ لیتے ہیں۔ لیکن بعض  لوگوں کا خیال ہے کہ وہ الیکشن مہم کے دوران ’’مدر پدر آزادی‘‘کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ حاجی نمازی منے خان جیسے مدرپدر آزاد امیدوار الیکشن مہم کے دوران کیا گل کھلاتے ہوں گے، اس کا اندازہ وہی شخص لگاسکتا ہے جس نے ’’بل فائٹنگ‘‘ دیکھی ہے۔ وہ اپنے خطبات عالیہ میں کسی شخص کومعاف نہیں کرتے۔ ہر مسئلے کے بخیئے ادھیڑ دیتے ہیں۔ بعض اوقات وہ کھل کر بلدیاتی مسائل پر بات کرتے ہیں ،حالانکہ وہ الیکشن قومی اسمبلی کی نشست کا لڑرہے ہوتےہیں۔ کبھی وہ قومی امور پر رائے زنی کررہے ہوتے ہیںمگر امیدوار وہ صوبائی اسمبلی کے ہوتے ہیں۔ انہیں بجٹ بنانے کا بہت شوق ہے وہ اکثر تقاریر میں وزیر خزانہ کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں اور انہیں اپنی ’’قیمتی تجاویز‘‘ بھی پیش کردیتے ہیں۔ خارجہ پالیسی ان کا خاص میدان ہے۔ اکثر وہ بڑی طاقتوں کی حکمت عملی کو ’’بڑی آسانی‘‘ سے سمجھ جاتے ہیں اور ان کی چال بازیوں کو وہ اس طرح عیاں کردیتے ہیں جیسے کوئی پڑوسن لڑائی کے دوران پڑوسن کے راز عیاں کردیتی ہے۔

فن خطابت میں انہیں اپنےسے بہتر کوئی نظر نہیں آتا،یہی وجہ ہے کہ جب وہ خطاب کرتے ہیں تو کسی کی نہیں سنتے اور نہ کوئی ان کی سنتا ہے۔ جوش خطابت میں بعض اوقات ان کے منہ سے جھاگ نکل آتے ہیں، آنکھیں پھٹ جاتی ہیں، چہرہ سرخ ہوجاتا ہے، مگر وہ تقریرکے دوران پانی کا گلاس لینا پسند نہیںکرتے۔ دراصل ان کا خیال ہے کہ جو مقرر تقریر کے دوران پانی پیتا ہے وہ بہتر مقرر نہیں،غالباً اس لئے ہر الیکشن کی دوسری یا تیسری میٹنگزسے ہی انکا گلا بیٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن جوش اور ولولہ بیٹھنے کی بجائے اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ حاجی نمازی منے خان کی الیکشن مہم جوں جوں اختتام کے قریب ہوتی ہے ان کی آواز مدہم پڑتی جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ الیکشن مہم کے آخری جلسے میں صرف ہاتھ، پائوں اورمنہ چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ بیٹھی ہوئی آواز کو اٹھانے کیلئے متعدد نسخےبھی استعمال کرتے ہیں مگر جب ان کی آواز بیٹھ جائے تو اٹھنےکانام ہی نہیںلیتی۔ جب موصوف بغیر آوازکے تقریرکرتے ہیں تو لوگ دور دور سے ان کی ’’تقریر‘‘ دیکھنے آتے ہیں۔

ان کا اپنا کوئی منشور نہیں، البتہ وہ دوسری جماعتوں اوران کے امیدواروں کے منشور کا خوب مذاق اُڑاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ الیکشن میں منشور پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیںہوتی، کیونکہ الیکشن کے دوران پیش کئے جانے والے منشور پر کوئی عمل نہیںکرتا۔

حاجی نمازی منے خان کا کہنا ہے کہ اگر میں برسراقتدار آگیا تو بیروزگاری کی سطح جوںکی توں رہنے دوںگا، بیماریاں پھیلتی پھولتی رہیں گی۔ بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ، مہنگائی اور دوسرے مسائل سے لوگ پریشان حال رہیں گے۔ ان کا فلسفہ ہے کہ اگر عوام کے نصیب میں پریشانیاں لکھی ہیں تو وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ ایک صاحب نے ان سے دریافت کیا، آخر آپ لوگوںکو پریشان حال کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟  حاجی نمازی منے خان نے جواب دیا، اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوںکو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے چونکہ یہ اللہ کا نظام ہے اس لئے میں اس نظام میں مداخلت نہیں کروںگا۔

وہ اکثر پاکستان کے بارےمیں متفکر رہتے ہیں۔ وطن عزیز کو دشمنوں کی نظر بد سے بچانے کے لیے ہر وہ کام کرتے ہیں جو ان کی پہنچ میں ہوتا ہے ۔انہوںنے اپنے کارکنوں کو اس حوالے سے خصوصی تربیت دے رکھی ہے۔ کارکنان کے ہر جلسے میںوقفے وقفےسے یہ نعرہ لگاتے رہتےہیں۔

کون بچائے گا پاکستان

حاجی نمازی منے خان

ان کا خیال ہے کہ اس نعرے سے ان کی حب الوطنی کاکھل کر اظہار ہوجاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ اب تک انہوںنے وطن کو کچھ نہیںدیا، البتہ وطن سے وہ بہت کچھ لیتے رہے ہیں۔ حاجی نمازی منے خان مکمل مساوات کے قائل ہیں۔ وہ ہر قسم کے امتیازات کےخلاف ہیں، خصوصا مرد اور عورت کے امتیازکو قطعی پسند نہیں کرتے۔ اپنی الیکشن مہم کے ایک جلسے میں وہ فرمانے لگے کہ ’’اگر میں الیکشن جیت گیا تو علاقے میں خوب ترقیاتی کام کرائوں گا۔‘‘لڑکیوںکیلئے ایک علیحدہ اسکول قائم کیا جائے گا اور لڑکوںکیلئےعلیحدہ۔خواتین کیلئے علیحدہ گرائونڈ ہوگا اور مردوںکیلئےعلیحدہ۔خواتین کیلئے علیحدہ مارکیٹ ہوگی اور مردوں کیلئےعلیحدہ۔خواتین کیلئے علیحدہ میٹرنٹی ہوم ہوگا اور مردوں کیلئےعلیحدہ۔کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ ان کے مساوات پر مبنی اس طرح کے خیالات لوگوںکو بہت متاثرکرتے ہیں۔

ان کے افکار اور کارناموں پر ایک ’’غریب قلمکار‘‘تحقیق کررہا ہے۔ اس تحقیق کے سامنے آنے تک ہمارا آپ کیلئے یہ مشورہ ہے کہ الیکشن میں آپ حاجی نمازی منے خان کے انتخابی جلسوں میں شرکت ضرورکیجئے گا۔

تازہ ترین