• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیپاٹائٹس...

پروفیسرڈاکٹر غلام علی مندرہ والا ایم ڈی

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال دنیا بَھر میں 28جولائی کو ’’ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے‘‘ ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ یوم پہلی بار 2011ء کو منایا گیا۔ رواں برس اس دِن کے لیے جس تھیم کا اجراء کیا گیا ہے، وہ ’’Test.Treat.Hepatites‘‘ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بَھر میں3کروڑ 25لاکھ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، جن میں سے ہر سال دس لاکھ34ہزار مریض لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہیپاٹائٹس بی اور سی اس وقت دنیا بَھر میں صحتِ عامہ کا بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ نیز، تاخیر سے علامات ظاہر ہونے کے باعث تقریباً 60فی صد افراد میں جگر کے سرطان کی وجہ بھی یہی عارضہ ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں عالمی ادارۂ صحت نے یہ بھی اعتراف کیا کہ عالمی توجّہ نہ ہونے کے سبب وائرل ہیپاٹائٹس ایک بڑا قاتل بن چُکا ہے کہ گزشتہ15برس سے نہ صرف شرحِ اموات، بلکہ نئے مریضوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم، اگر ہر سطح تک تشخیص اور علاج معالجے کی سہولت میسّر آجائے اور عوام الّناس میں بھی مرض سے متعلق شعور و آگاہی اُجاگر ہو، تو پھیلائو کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں بھی ہیپاٹائٹس کے مرض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اورجس کے پھیلائو کی بنیادی وجوہ میں جہاں آگاہی کا فقدان، احتیاطی تدابیر پر عدم عمل درآمد شامل ہیں، وہیں متعدد تصوّرات، مفروضات و توہمّات پر بنا سوچے سمجھے یقین کرنا بھی شامل ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ان ہی مفروضات و توہمّات سے متعلقاصل حقائق بیان کیے گئے ہیں۔

ہیپاٹائٹس، جگر کی سوزش کا ایک ایسا عارضہ ہے، جس کے علاج معالجے میں اگر کوتاہی برتی جائے، اتائیوں یا ناتجربہ کار معالجین سے علاج کروایا جائے یا پھر مختلف ٹونے ٹوٹکے استعمال کیے جائیں، تو یہ نہ صرف زندگی کے دورانیے کی کمی پر منتج ہوتا ہے، بلکہ شدید پیچیدگیوں کا بھی باعث بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں زیادہ تر سادہ لوح افراد یرقان کو ہیپاٹائٹس سے منسلک کردیتے ہیں۔ جب کوئی ہیپاٹائٹس کا ذکر کرے، فوراً ذہن میں یرقان کا خیال آتا ہے اور اگر یرقان کا تذکرہ کیا جائے، تو ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای کی بابت سوچا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی فرد ہیپاٹائٹس اے یا بی میں مبتلا ہوجائے، تو وہ یہی سوچے گا کہ اُسے تو کبھی زندگی میں یرقان ہوا ہی نہیں تھا، شاید یہ رپورٹ ہی غلط ہے اور اسی بنیاد پر عموماً مریض اور اس کے لواحقین، معالج سے ضد بحث کرتے ہیں، کیوں کہ اِن کے ذہن میں یہ تصوّر راسخ ہوچُکا ہے کہ ہیپاٹائٹس اور یرقان کبھی الگ نہیں ہوسکتے۔ اس طرح یہ تصوّر بھی عام ہے کہ ہیپاٹائٹس اور یرقان میں پیٹ میں پانی بَھر جاتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی اُلٹیاں ہوتی ہیں۔ نیز، یہ بھی کہ یہ مرض لاعلاج ہے۔ جب کہ مریضوں کی بڑی تعداد اس وہم کا بھی شکار ہے کہ دَم کروانے، گلے میں ہار پہن لینے یا چُونے کا پانی پیلا پڑ جانے سے بھی مرض ختم ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ اِن تمام تر غلط تصوّرات و مفروضات میں کوئی صداقت نہیں اور اِن کی بیخ کنی اشد ضروری ہے۔

درحقیقت پاکستان بَھر میں ہیپاٹائٹس اے زیادہ عام ہے۔ ہیپاٹائٹس اے کا وائرس، مُنہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور جگر کو کسی حد تک اپنا فعل انجام دینے سے روک دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جسم میں روزانہ کی بنیاد پر سُرخ جسیمے (جنھیں طبّی اصطلاح میں ریڈ بلڈ سیلز کہا جاتا ہے) پھٹنے سے پیدا ہونے والا’’BILIRUBIN‘‘جگر سے گزر نہیں پاتا اور یرقان کی صورت جمع ہونے لگتا ہے۔ ہیپاٹائٹس اے کا وائرس فضلے کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے اور پھر کسی دوسرے مریض کے جسم میں مُنہ کے ذریعے ہی داخل ہوجاتا ہے۔ مرض کا دورانیہ دو سے آٹھ ہفتے ہے۔ اور اس دوران یہ خود بخود بھی ختم ہوجاتا ہے، جب کہ مریض یہی تصوّر کرتا ہے کہ اُسے افاقہ ڈرپس، ادویہ، دَم یا تعویذ گنڈوں سے ہوا ہے۔ رہی بات، خون کی اُلٹیوں یا پیٹ میں پانی بَھر جانے کی، تو ہیپاٹائٹس بی اور سی میں شاذ و نادر ہی ابتدائی ایّام میں ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ بسا اوقات تو یہ مرض غیر محسوس انداز سے مدتوں جسم میں موجود رہتا ہے۔ یہ عرصہ دس سے بیس برس پر محیط بھی ہو سکتا ہے۔ دراصل ہیپاٹائٹس بی یا سی کا وائرس جسم میں کسی بھی زخم کے ذریعے باآسانی داخل ہوکر جگر کو متاثر کرسکتا ہے۔عموماً ان دونوں کے پھیلائو کی زیادہ تر وجوہ میں حجام سے شیو بنوانا، کسی اتائی دندان ساز سے معمولی یا بڑی جرّاحی کروانا، غیر مطہر آلات کا استعمال، ایک سے زائد بار سرنج کا استعمال، غیر محفوظ انتقالِ خون، جِلد گدوانا یا اس پر نقش و نگار (ٹیٹوز) بنوانا، بے راہ روی، اور اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک اس وائرس کا شکار ہو، تو دوسرے میں مرض منتقلی کا سبب بننا وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ آج کل ایک دوسرے کی کنگھی استعمال کرنے کو بھی مرض کے پھیلائو کی ایک وجہ قرار دیا جارہا ہے۔چوں کہ عموماً ہیپاٹائٹس بی اور سی کی علامات ایک طویل عرصے تک ظاہر نہیں ہوتیں، اس لیے احتیاط اور بچائو کی تدابیر بھی جلد اختیار نہیں کی جاتیں۔ حالاں کہ یہ وائرس حاملہ کے ذریعے شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ اس لیے دنیا بَھر سمیت پاکستان میں بھی حمل وضع ہوتے ہی ہیپاٹائٹس بی اور سی کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔جب کہ ہیپاٹائٹس اے اور بی سے بچائو کے تو باقاعدہ حفاظتی ٹیکے موجود ہیں۔ ایک بار ویکسن نیشن کروالینے کے بعد زندگی بَھر کے لیے اِن دونوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

اگرچہ ہیپاٹائٹس اے لاحق ہونے کے بعد، خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے، لیکن احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کے سبب شدید یرقان بھی ہوسکتا ہے،جب کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا علاج بھی ادویہ کی صورت ممکن ہے، لیکن بدقسمتی سے مریض، معالج سےرجوع ہی تب کرتا ہے، جب جگر کافی حد تک خراب ہوچکا ہوتا ہے اور اس مرحلے میں علاج مشکل امر بن جاتا ہے۔ کیوں کہ جگر کے سیروسز (سکڑنے) کو کسی حد تک کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے، لیکن جگر کا مکمل طور پر ٹھیک ہوجانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ حالاں کہ موجودہ دَور میں ہیپاٹائٹس سی کا تقریباً مکمل علاج موجود ہے۔ بہ شرط یہ کہ مرض پیچیدہ ہونے سے قبل معالج سے رجوع کرلیا جائے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یرقان صرف ہیپاٹائٹس کے وائرس اے، بی، سی، ڈی اور ای ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ کئی اور بھی وائرسز ہیں، جو اس کی وجہ بن سکتے ہیں۔ بسا اوقات کچھ جڑی بوٹیاں، ادویہ اور کیمیکلز بھی یرقان کا سبب بن جاتے ہیں۔

ایک اور اہم بات، عموماً پیدایش کے تین دِن بعد نومولود میں جو یرقان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، وہ باعثِ تشویش نہیں، لیکن اگر بچّہ پیدایش کے وقت ہی یرقان میں مبتلا ہو، تو یہ ایک خطرناک بیماری ہے، جو والدین کے خون میں متضاد گروپ کے باعث لاحق ہوجاتی ہے۔ رہی بات ہیپاٹائٹس ای کی، تو یہ وائرس بھی مُنہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر، فضلے کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے اور یہ قسم خطرناک نہیں، البتہ اگر حاملہ ہیپاٹائٹس ای کا شکار ہوجائے، تو بیماری جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک اور بات جو مشاہدے میں آئی کہ ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص کے لیے عموماً اتائی یا نیم حکیم ایک معمولی ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں اور رپورٹ دیکھتے ہی مریض کو کہہ دیتے ہیں کہ وہ اس مرض کا شکار ہے، جس کا مریض کے ذہن پر بہت بُرا اثربھی پڑتا ہے، تو یہ قطعاً غلط ہے کہ "ANTI HCV" کا ٹیسٹ، مرض کی تشخیص کے لیے نہیں، صرف یہ پتا لگانے کے لیے کروایا جاتا ہے کہ مریض کو پہلے ہیپاٹائٹس سی ہوا تھا اوراب موجود ہے یا ختم ہوچُکا ہے، کیوں کہ اگر ہیپاٹائٹس سی کا وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد ایکٹیو نہ ہواہو، تو تقریباً80 فی صد کیسز میں یہ خودبخود ختم بھی ہوجاتا ہے۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین