• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی مالی اور انتظامی بحران کا شکار ہو گئی

کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی مالی اور انتظامی بحران کا شکار ہو گئی، پانچ ہزار سے زائد ملازمین کو ماہ جون کی تنخواہ تاحال نہ مل سکی جب کہ پنشنرز دو ماہ سے محروم ہیں،ملازمین نے اس صورتحال کے خلاف جمعرات کو زبردست احتجاج کا پروگروام بنا لیا،بعض سینئر افسران نے مزید کام جاری رکھنے سے معذرت کر لی۔ تفصیلات کے مطابق کے ڈی اے جسے بحال ہوئے دو سال ہو گئے، شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی تو درکنار اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کر پائی۔ سینئر ملازمین کی مجموعی ماہانہ تنخواہ 26کروڑ روپے اور پنشن7 کروڑ روپے بنتی ہے، حکومت سندھ سے تنخواہوں کی مد میں ہر ماہ اسے20 کروڑ 40 لاکھ روپے کی گرانٹ ملتی ہے جب کہ کے ڈی اے اپنی آمدن جو دس کروڑ روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی، کم ہو کر50 لاکھ روپے رہ گئی ہے۔ اس صورتحال پر جب ڈائریکٹر فنانس سعید احمد خان سے موقف معلوم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ رواں ماہ ہمیں حکومت سے تاحال گرانٹ نہیں ملی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ کے ڈی اے کی اپنی ماہانہ ریکوری بھی نہ ہونے کے برابر، 50لاکھ روپے ماہانہ رہ گئی ہے۔ ڈائریکٹر نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے ادا ہوں گی، سات کروڑ روپے کا تقریباً ماہانہ شارٹ فال ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ڈائریکٹر کی پوسٹ پر زبردستی بٹھا دیا گیا ہے، مزید کام نہیں کرنا چاہتا۔ دریں اثناء سیکرٹری فضیل بخاری نے کہا ہے کہ ادارے میں جس طرح کے حالات پیدا ہو گئے ہیں مزید کام جاری نہیں رکھ سکتا، 25 یا 26جولائی کے بعد سیکرٹری کا عہدہ چھوڑ دوں گا واپس ڈائریکٹر ریکوری بھی نہیں جائوں گا۔ دوسری جانب اسٹاف اور افسران کا کہنا ہے کہ کے ڈی اے بحال ہونے کے بعد اب تک شہریوں کے لئے کسی نئی رہائشی اسکیم کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی پہلے سے موجود اسکیموں کے الاٹیز کے لئے کوئی اقدامات کئے گئے۔ اپنے پلاٹوں کی ٹرانسفر، میوٹیشن، لیز اور دیگر کیسز کے لئے کے ڈی اے ہیڈ آفس سوک سینٹر آنے والے لینڈ ڈپارٹمنٹ کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور انہیں بلاجواز تنگ کیا جاتا ہے، جو کام دس پندرہ دنوں میں ہو جاتا تھا اب مہینوں لگ جاتے ہیں، ملازمین اپنے ڈائریکٹر جنرل سمیع صدیقی سے بھی ناخوش ہیں جو روزانہ ایک بجے کے بعد صرف ایک گھنٹے کے لئے دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے بھی بہت سے مسائل بروقت حل نہیں ہوتے، سندھ کے متعدد اضلاع کا لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو گیا لیکن کے ڈی اے ایک بین الاقوامی شہر کے لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز نہ کر سکا۔ کے ڈی اے کی دو سالہ کارکردگی سے جہاں شہری خوش نہیں وہاں اس کے ملازمین بھی مایوس ہیں، کسی ایک شعبے کی کارکردگی بھی بہتر نہ ہو سکی۔
تازہ ترین