کراچی کی پیپر مارکیٹ کئی لحاظ سے مشہورہے۔ خاص کر یہاں تیار کیا جانے والا پیپر اور پرنٹنگ کاسامان منفرد اور عمدہ ہونے کی وجہ سے پورے پاکستان میں بھیجا جاتا ہے۔
آپ مارکیٹ کا چکر لگا لیں ۔ شادی بیا ہ کا موسم تو سارے سال ہی چلتا ہے لہذاکئی دکانوں پر سجاوٹ کی تھالیاں ، کارڈ شیٹس ، کارڈز پیکنگ شیٹس وغیرہ کا سامان ہر دم اور نسبتاً کم قیمت دستیاب ہے۔
پورے پاکستان میں ان دنوں الیکشن کا موسم ہےلہذا یہاں بھی سیاسی پوسٹر، ربن ، طرح طرح کے اسٹیکرز ،بیجز، سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے ، کارڈ اور دیگر منفرد چیزیں نظر آرہی ہیں ۔
کہیں بلاول اور بینظیر مل کرتیر پر مہر لگوا رہے ہیں تو کہیں عمران فضا میں بلا گھوما رہے ہیں ۔ نواز شریف کا ووٹ بینک کراچی میں نہ سہی لیکن پیپرمارکیٹ میں نواز شریف کا شیرخوب دھاڑ رہا ہے۔
کہیں تحریک لبیک کی کرین ہے تو کہیں ہاتھوں میں کتاب ہےجبکہ کراچی کی نمایاں نمائندہ پتنگ بھی نظر آرہی ہے۔ اے این پی کی لالٹین کی روشی اور نیلی ڈولفن چھوٹی اورپانچویں حیثیت سے نمایاں نظر آرہی ہے۔
ہمیں مارکیٹ کی سب سے منفرد چیز سیاسی پارٹیوں اور انفرادی امیدواروں کے پلاسٹک لیمینشن بیجز لگے۔ مارکیٹ میں قائم پرنٹنگ پریس کے مالک نصیر احمد صاحب کا کہنا ہے کہ عام آدمی تو نہیں لیکن سیاسی لوگ اپنی پسند کے امیدواروں کے پلاسٹک لیمینشن بیج بنواکراپنی دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں بھی یہ کام کیا تھا لیکن اس بار ہمیں بڑا آڈر ملا تھا۔‘
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا ’یہ بے موسم کا کاروبار ضرور ہے لیکن کم وقتی اور نفع بخش ہونے کی وجہ سے اس بار بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ لگایا گیاہے۔ اندرون سندھ ہی نہیںبلکہ پنجاب سے بھی آڈر ملے تھے۔
ایک دوسرے دکاندار محمد راشدنے ہم سے بات کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ مارکیٹ میں الیکشن اور سیاسی جماعتوں کے پوسٹر ، جھنڈے اور بیجز کی تیاری کا کام پہلی جولائی سے شروع ہو گیا تھا یہ کام ہول سیل میں ہونے کی وجہ سے پو رے پاکستان میں سپلائی کیا جاتاہے۔مارکیٹ میں اس بار اندرون سندھ میں سب سے زیادہ پی پی پی اور پھر جی ڈی اے کی مانگ ہے ۔
کراچی کا عام ووٹرسیاسی بحران کا شکار ہےلہذا اس سیاسی گہما گہمی میں بھی عام آدمی کی دلچسپی نظر نہیں آرہی ۔بڑے دکانداروں کو تو پھر بھی فائدہ ہوا ہے لیکن چھوٹے کاروبار کرنے والے کراچی کی سیاسی لاتعلقی سے پریشان نظر آئے۔
شاہ رخ چھوٹے سے کاروبار سے منسلک ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ پیسہ لگا کر پچتا رہے ہیں ۔خریدار نہیں ہے ۔ عام آدمی کی دلچسپی نہیں۔ یعنی مارکیٹ سے بڑا مال نہیں اٹھ رہا ۔ اس بات کی تائیدایک اور چھوٹے کاروباری صالحین نے بھی کی جبکہ خالد نے چھوٹے بیجز اور اسیٹیکر ر زکریلا اسٹاپ نارتھ کراچی سے چھپوائے تھے۔
مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق ہمیں سب سے زیادہ کرین ، تیر اور پھر بلے کے نشانات نظر آئے ۔یہاں ہماری ملاقات ملیراین اے238 اور پی ایس 90 پی پی پی کے ورکرز رسول خان اور رفیق ناگوری سے ہوئی۔ ان کے حلقے سے راجہ عبدالرزاق کھڑے ہوئے ہیں۔
رسول خان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اور جگہ تو ہمیں ہلچل نظر نہیں آرہی لیکن ڈسٹرکٹ ملیر میں بہت گہماگہمی ہے۔آپ وہاں آئیں تو دیکھیں گی کہ ہر پارٹی آزادنہ طریقے سے کام کر رہی ہے ۔الیکشن کا مزہ آرہا ہے۔
رفیق ناگوری کا کہنا تھا کہ ہمارے دفتر کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کا دفترہےاور ساتھ ہی نون لیگ کا۔ سب ایک ساتھ اور برابر میں مل جھل کر کام کر رہے ہیں۔وہاں تو پتا لگ رہاہے کہ الیکشن ہے لیکن یہاں شہر میں لگ ہی نہیں رہا کہ الیکشن ہے۔ہمارا حلقہ پی پی پی کا ہے اوراس بار بھی پی پی پی جیتے گی۔
اسی بازار میں فٹ پاتھ پرایک چھوٹے سے اسٹال پر نوجوان ذیشان سے بات ہوئی جو اس الیکشن میں پہلی بار اپنا قیمتی ووٹ ڈالیں گے۔ہلکے سے جوش کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ان کاووٹ پی ٹی آئی کا ہے کیونکہ خان کے پاس پاکستان کے لئے بہت کچھ ہے۔
الیکشن دو ہزار اٹھارہ میں بہت کچھ نیا ہے۔ نئے سیاسی گٹھ جوڑ، نئی حلقہ بندیاں، لوٹا کریسی، بلاول کی نئی سیاسی اڑان۔ پی ایم ایل ن کے نئے سیاسی موڈز۔ اور عمران خان کی اگلے وزیر اعظم بنیں کی تڑپ ۔ دیکھنا یہ ہے کہ چند دن بعد الیکشن کے چراغ سے کون سا نیا وزیر اعظم نکلتا ہے۔