عابد محمود عزام
عام انتخابات میں چند روز باقی رہ گئے ہیں،تمام سیاسی جماعتیں عوام، بالخصوص نسل نو کو سبز باغ دکھا کر اپنا ہامی بنانے میں کوشاں ہیں۔ ہر حلقے میں سیاسی نمائندے کچھ دنوں سے اپنے علاقے کے عوام کی خدمت میں مصروف نظر آرہے ہیں ۔ تمام تر کوششوں، دعوؤں اور وعدوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ نوجوان بس انہیں ہی اپنا نمائندہ سمجھ کر ووٹ ڈالیںاوروہ مسند اقتدارپر فائز ہوجائیں،پھر چاہے وہ ان سے کیے گئے وعدے بھول ہی کیوں نہ جائیں۔ ان حالات میں نوجوان ووٹرز تذبذب کا شکار ہیں کہ ووٹ کس کو دیں؟ جس جماعت کوووٹ دیں گے ، کیا وہ ان کی امیدوں پر پوری اترے گی؟ ووٹ لینے والے سیاست دان اپنے پرکشش نعروں، بلند بانگ دعوئوں، خواب ناک انتخابی منشور اور ہیجان انگیز انتخابی مہم کی دھماچوکڑی کے ذریعے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ عوام ہوش میں اس وقت آتے ہیں، جب مہنگائی کا جن بے قابو ہوجاتا ہے، بجلی اور گیس کے بلوں میں ہوش ربا اضافہ ہوتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے دورانیے مزید بے وقت اور طویل ہوجاتے ہیں، امتحانات کے زمانے میں بھی غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، شہروں اور دیہات کے نوجوانوں کی تعلیم و ترقی کے لیے ملنے والے فنڈز سیاسی نمائندے ہڑپ کر جاتے ہیں،جب عوام ہوش میں آتے ہیں، تو ان سیاسی نمائندوں کو برا بھلا کہتے ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، کیوں کہ پانچ سال تک اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن ان حا لات کا ذمے دار اور کوئی نہیں بلکہ عوام خود ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ ہی تو ہیں،جوایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، جن کے نزدیک صرف اور صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔
ملک میں نصف سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو 25جولائی کے انتخابات میںاپنے ووٹ کے ذریعے اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔ اگرنوجوان سمجھداری سے کام لیتے ہوئے،ایسے افراد کو ووٹ دیں، جو تعلیم یافتہ اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں، تو ضرور بہت سی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ووٹ کی صورت میں ہر نوجوان کے پاس اختیار ہے، جس کا استعمال کرکے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے ملک اور قوم کی بھی تقدیر بدل سکتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے لیے نوجوانوں کے ووٹوں کی محتاج ہیں، کیوں کہ نسل نو کی تعداد اور ان کا ووٹ بینک بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں نوجوانوں کے لیے ہر پانچ سال کے بعد مختلف پالیسیوں کا اعلان کرتی ہیں، لیکن اقتدار ملنے کے بعد دیگر اعلانات کی طرح وہ بھی بھول جاتی ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں، جو تمام سیاسی جماعتوں کی اصل قوت ہوتے ہیں، ان ہی کے دم سےوہ کام یاب ہوتی ہیں، اگر نوجوان سیاسی جماعتوں کی خامیوں کا مواخذہ کرنا چاہیں، تو بہت آسانی سے کرسکتے ہیں، اس کا بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ ذات، برادری، لسانی بنیادسے بالاتر ہو کرتمام جماعتوں کی سابقہ کارکردگی پر نظر ڈالیں، جائزہ لیں کہ انہوں نے آپ کے لیے کیا کچھ کیا؟ کیا تعلیم، صحت، روزگار کے مسائل حل کیے؟اگر نہیں تو اس بار ووٹ دیتے وقت اپنی عقل کا استعمال کیجیے، جس سیاسی جماعت کا ماضی داغ دار ہو، اسےہر گز ووٹ نہ دیں،یاد رکھیں، کوئی بھی جماعت اس وقت تک حکومت میں نہیں آسکتی، جب تک ان کے ساتھ نوجوانوں کا تعاون نہ ہو، اگر آپ کے تعاون سے ایسے افراد اقتدار کی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں، جو اقتدار سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں ،تو اس میں قصور وار صرف اور صرف آپ ہی ہوں گے۔ اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نوووٹ دینے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کرلے، ابھی وقت ہے، ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے، لیکن آپ کا ایک غلط ووٹ آنے والے پانچ برسوں کے لیے آپ کے لیے زحمت بن سکتا ہے۔ اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا ہوگی،الیکشن کا چاند بن کر آپ کے علاقے یا محلے میں نظر آنے والے ماضی کے منتخب نمائندوںاور آج کےامیدوار سے بھرپور انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ اپنی محرومیوں کا جائزہ لیں، درپیش مشکلات اور پریشانیوں پر ایک نگاہ ڈالیں اورانتخاب کے دنوں میں نظر آنے والے نام نہاد نمائندوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے یکسر مسترد کردیں۔ رائے دہی کے وقت کسی دباؤ، رنگ نسل، برادری کی بنیاد کے بہ جائے قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پرایسے نمائندےمنتخب کریں، جو عوام الناس کی حقیقی نمائندگی کرسکیں، جن کے پاس عوامی مسائل کا ٹھوس حل موجود ہو، جن کا منشور الفاظ کے گورکھ دھندوں کے بہ جائے قابل عمل حکمت عملی کا غماز ہو۔
تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بہ خوبی احساس ہوتا ہے، کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے، کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں حکومتوں کی کارکردگی دیکھیں ،تو اندازہ ہوگا کہ صحت، تعلیم، روزگارجیسے شعبوں کا معیار بڑھنے کے بہ جائے مزید خراب ہوگیا۔ غربت، قحط، ماحولیاتی آلودگی، ناخواندگی اور پانی کی کمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ایسے حکمرانوں کا انتخاب کر یں، جوملک و قوم کے بارے میں سوچیں، جو عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوںاور جن کا جینا مرنا اپنے ملک و قوم کے ساتھ ہو۔ چند پیسوں یا الیکشن کے دن ایک وقت کے کھانے کی خاطر اپنا ضمیر نہ بیچیں۔ ووٹ ڈالنے کا عمل صرف پانچ سیکنڈ کا ہے، لیکن اس کے نتائج پانچ سال برداشت کرنا پڑیں گے۔اگر ہم سب ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے تو وہ دن دور نہیں کہ جب امیر اور غریب کا ایک پاکستان ہو گا۔میرے نوجوان دوستو! ہمارا ووٹ قوم کی امانت ہے ،اسے اسی کے سپرد کرنا چاہیے ، جو اس کا حق دار ہو۔