صدرغلام اسحٰق خان کی جانب سے 18 اپریل 1993ء کو نواز شریف حکومت کی برطرفی کے بعدبلخ شیر مزاری کا تقررنگران وزیراعظم کے طور پر کیا گیا۔
تحلیل ہونے والی اسمبلی کے اسپیکرگوہر ایوب خان نے تحلیل کرنے کا حکم لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا، پھر معطل وزیراعظم نواز شریف نے 25 اپریل کو سپریم کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن دائر کی۔چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی قیادت میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ نے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی اور 26 مئی 1993ء کو قومی اسمبلی اور نواز شریف حکومت کو بحال کردیا۔
صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں وفاقی ڈھانچہ ڈیڈلاک کا شکار ہوگیا تھا، چنانچہ بری فوج کے سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ثالثی کے ذریعےڈیڈلاک کا حل نکال لیا۔ جس کے تحت 18جولائی 1993ءکو وزیراعظم نواز شریف کے مشورہ پر صدر غلام اسحٰق خان نے قومی اسمبلی تحلیل کردی جبکہ صدرغلام اسحٰق خان نے استعفیٰ دے دیا۔
اس طرح 18جولائی کو وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کو اقتدار چھوڑ کر گھر جانا پڑا۔
قومی اسمبلی کے لیے پولنگ 6اکتوبر اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 9اکتوبر کو پولنگ کا انعقاد کیا گیا۔جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 86 اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 73 نشستیں حاصل کیں۔پی ایم ایل (جونیجو) نے (6) اور آزاد اُمیدواروں نے 15 سیٹیں حاصل کیں۔ان انتخابات میں حق پرست گروپ جس کا انتخابی نشان پتنگ تھا، نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 37لاکھ 12ہزار 319 تھی، جس میں سے 2کروڑ 2لاکھ 93ہزار 307افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جن میں سے 2لاکھ 70ہزا ر439 ووٹ مسترد ہوئے، اس طرح ٹرن آؤٹ 37 اعشاریہ 6 فیصد رہا۔
پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 86نشستیں حاصل کیں، مگر وہ اتنی نہ تھیں کہ پیپلز پارٹی تنہا اپنی حکومت بنا سکے۔ اس لیے پی پی پی نے دوسری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر اپنی حکومت قائم کرلی اور اس طرح بے نظیر دوسری بار ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ مسلم لیگ (ن)نے حزب مخالف کا کردار سنبھال لیا۔
بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم تو بن گئیں لیکن اس بار پی پی پی کے سابق سیکریٹری جنرل سردار فاروق خان لغاری نے بطور صدر اٹھاون ٹو بی کے ذریعے پی پی پی کی حکومت کو 5 نومبر 1996ء میں برطرف کردیا۔بے نظیر بھٹو حکومت پر مختلف الزامات لگا کر معزول کیا گیا۔