25جولائی میں اب فقط دو روز باقی ہیں۔ پھر ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ عوام الناس کسے حق حکمرانی تفویض کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس دن تک آنے میں بہت سی مشکلات اور رکاوٹیں حائل رہیں۔ بے یقینی کی ایک مستقل کیفیت تھی ، جو ہمارے سیاسی منظرنامے پر چھائی رہی۔ بسا اوقات بروقت انتخابات کا انعقادنا ممکن دکھائی دیتاتھا۔ کھلے عام ایسے تبصرے، تجزئیے اور پیشین گوئیاں ہوتی رہیں کہ کوئی ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ آیا چاہتاہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ عام انتخابات تو دور کی بات، سینیٹ انتخابات بھی ہوتے نظر نہیں آتے۔ سیاسی منظرنامہ کچھ ایسا تھا کہ یہ خدشات درست دکھائی دیتے تھے۔ ہمارے ملک کی انتخابی تاریخ ایسے ہی واقعات اور بے یقینی کی کیفیات سے بھری پڑی ہے۔ وطن عزیز میں بروقت انتخابات کا انعقاد کم کم ہی ممکن ہو سکا۔مزید بد قسمتی یہ کہ بیشتر انتخابات اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی بحران لے کر آئے۔غنیمت ہے کہ اب ہم الیکشن ڈے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ انتخابات سے پہلے اور بعد کی صورتحال سے متعلق اب بھی مختلف تجزئیے اور تبصرے ہو رہے ہیں۔کچھ حلقوں کی جانب سے خدشات اور تخفظات کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ تاہم ان تمام باتوں سے قطع نظر، پولنگ ڈے کی اہمیت سے انکارممکن نہیں۔ لہٰذا فی الحال تو ہماری توجہ کا مرکز و محور وہ ایک دن یعنی 25 جولائی ہونا چاہئے۔ عوام الناس کیلئے اس امر کی تفہیم بے حد ضروری ہے کہ یہ ایک دن محض چوبیس گھنٹوں پر مشتمل کوئی معمول کا دن نہیں ہے۔ بلکہ یہ دن پانچ سال پر محیط ہو گا۔ یعنی جو فیصلہ ہم 25 جولائی کو کریں گے اسکے اثرات یا ثمرات پانچ سال تک محسوس کیے جا سکیں گے۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس دن کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کریں۔
ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہے کہ ہر غلط کاری کیلئے حکومتوں اور سیاستدانوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتاہے۔ انہیں بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔کسی حد تک یہ بات قابل جواز ہے۔ ملک کی باگ ڈور چونکہ سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور انہیں قوم کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے چنانچہ سماج میں ہونے والے ہر اچھے برے کام کی اولین ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ مگر بطور شہری کچھ ذمہ داریاں ہماری بھی ہوتی ہیں۔ہمارا آئین ہمیں اختیار دیتا ہے کہ ہم اپنی مرضی اور پسند کے سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کو حق حکمرانی سونپیں۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ ہم اپنے اس حق اورذمہ داری کا استعمال کرنے سے تو تغافل برتتے ہیں، البتہ حکومتوں اور سیاستدانوں کے لتے لینے کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔ مہذب ممالک میں شہری اپنے اس حق (بلکہ طاقت )سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ووٹ کا درست استعمال کر کے وہ اپنی مرضی کا سیاستدان چن سکتے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستانی عوام میں سیاسی شعور بہت بڑھ گیا ہے۔ عوام الناس کافی حد تک اپنا اچھا برا سمجھنے لگے ہیں۔ ا سکا سب سے زیادہ کریڈٹ میڈیا کو جاتا ہے۔ خاص طور پر ٹی وی چینلز کا کردار بے حد اہم ہے، جنہوں نے عوام کو سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کا ہنر سکھا دیا ہے۔ پہلے وقتوں میں صرف پڑھے لکھے لوگ سیاست کو زیر بحث لایا کرتے تھے۔ آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ کم پڑھے لکھے بلکہ ان پڑھ افراد بھی سیاسی موضوعات کو زیر بحث لاتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔اسی طرح سوشل میڈیا نے لوگوں کو ہر طرح کی پابندی سے مبرا اظہار رائے کی آزادی فراہم کر رکھی ہے۔ خاص طور پر ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا پر کھل کر اظہار خیال کرتی ہے۔
اس سارے معاملے کا افسوسناک پہلو مگر یہ ہے کہ سیاست میں تمام تر دلچسپی کے باوجود بیشتر لوگ ووٹ ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔ ابھی بھی عوام کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کو وقت کا ضیاع تصور کرتی ہے۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں سستی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ تو مردوں کے کرنے کا کام ہے۔ہم میں سے بہت سوں کو چھٹی کے دن اپنی نیند خراب کر کے جاگنا، پولنگ اسٹیشن میں جا کر لمبی لمبی لائنوں میں لگنا اور پھر ووٹ ڈالنا بہت کٹھن کام معلوم ہوتا ہے۔ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گھنٹوں ٹاک شو ز دیکھنا، سوشل میڈیا پر سارا سارا دن سیاسی مواد پڑھنا اور پوسٹ کرنا الگ بات ہے ۔ مگر گھر سے نکل کر پولنگ اسٹیشن تک جانے کی زحمت کون کرے؟یہ طرز عمل کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ یہ طرز عمل نہ صرف ہمارے ملک کیلئے بلکہ خود ہمارے اپنے مستقبل کیساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ ہمارااولین فرض ہے کہ 25 جولائی کو اپنی اس ذمہ داری سے پہلو تہی نہ کریں۔ یہ دن پانچ سال کے بعد آرہا ہے۔ یعنی پانچ سال بعد ہم سے ہماری رائے پوچھی جا رہی ہے کہ ہم اپنے ملک کی باگ ڈور کس سیاسی جماعت کو سونپنا چاہتے ہیں۔ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کا اختیار کس سیاسی رہنما کو دینا چاہتے ہیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جو ہمارے لئے کسی بھی کام اور مصروفیت سے بڑھ کر اہم ہونا چاہئے۔
پانچ سال کے بعد چند گھنٹوں کی تکلیف اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا ووٹ اسقدر طاقتور ہے کہ اسکے ذریعے ہم بہت کچھ تبدیل کر سکتے ہیں۔ اپنے ملک کے حالات بھی اور اپنی روز مرہ زندگی سے جڑے چھوٹے بڑے معاملات بھی۔ ایسا فقط اس صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنی رائے کا اظہار کریں اور ووٹ ڈالیں۔ یہ ہماری مرضی پر منحصر ہے کہ یہ ووٹ ہم نے کس سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کو دینا ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہم اپنے ضمیر، اپنے شعور اور اپنی پسند کےمطابق فیصلہ کریں۔ایک ضروری بات یہ کہ ہم اکثر دھاندلی کا شور سنتے ہیں۔ پاکستان کے شہریوں کو اس امر کا یقین ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی انتخابی اصلاحات کے بعد، نادراکی مدد سے الیکشن کمیشن نے ایسے انتظامات ضرور کرلیے ہیں کہ پولنگ ڈے پر دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لہٰذا ہمیں پورے اعتماد کیساتھ اپنی رائے دینی ہے اور ووٹ ڈالنا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملکی، سماجی اور ذاتی حالات، سیاست اور سیاسی معاملات پرخالی خولی تبصرے کرنے سے نہیں، ووٹ ڈالنے سے تبدیل ہونگے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)