25 جولائی جوں جوں قریب آرہی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ امارات میں مقیم پاکستانی اپنے حلقوں میں فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے پاکستان جارہی ہے جس کی وجہ سے ایئر لائن کی ٹکٹوں کا حصول مشکل ہوگیا ہے، بلکہ جنہوں نے پہلے بکنگ نہیں کروائی، انہیں مہنگے داموں میں ٹکٹیں خریدنا پڑرہی ہیں۔
پاکستان میںانتخابات کے حوالے سےہم نے یواےای میں مقیم متعدد پاکستانیوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا قومی فریضہ ہے، اس کا حق بہتر امیدواروں کو ووٹ دے کر ہی اداکیا جاسکتا ہے۔ میاں اویس انجم متحدہ عرب امارات میں تحریک انصاف کے بانی رہنما ہیں۔ انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی ٹکٹ کے لیے درخواست دی، لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اب عمران خان کے لاہور حلقہ میں ان کی انتخابی مہم چلارے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 25 جولائی تبدیلی کا دن ہوگا۔ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے ووٹ دیں گے۔ ووٹ کے تقدس کو اگر مسلم لیگ (ن) والے بحال کرنا چاہتے تو بیرون ملک مقیم 70 لاکھ پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ضرور دیتے۔ انہوں نے جان بوجھ کر ووٹ کے حق سے محروم رکھا۔ اوورسیز پاکستانی بہتر جانتے ہیں کہ حکومتیں کس طرح بہتر نظام چلارہی ہیں۔ انہیں حکومت میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بہتر مشورے اور قانون سازی میں مدد دے سکیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کوزیادہ سے زیادہ تعداد میں آکر ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہیے۔
سلمان جاذب نوجوان شاعر، ادیب اور پاکستان سے محبت کرنے والےانسان ہیں، وہ کہتے ہیں الیکشن کے شفاف ہونے کے امکانات کافی ہیں، لیکن ووٹرز کو پریشانی کا سامنا ہوگا۔ حلقوں کی تبدیلی کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں گے۔ میں ملک اور قوم کی خاطر ووٹ ڈالنے پاکستان جارہا ہوں۔ ایک ایک ووٹ قوم کی امانت ہے۔ اسے اوورسیز پاکستانی بھی ضرور کاسٹ کریں۔
ادریس خان مقامی ہوٹل میں منیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ پاکستانی ہونے کے ناطے سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ الیکشن 2018ء سے پہلے ہی پارٹیاں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگارہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کو یقینی اکثریت نظر نہیں آرہی۔بیرون ملک پاکستانیوں کووٹ کا حق دینا چاہیے۔ پاکستان کے زرمبادلہ میں ان کا بڑا حصہ شامل ہے، ہم دیار غیر میں محنت مزدوری کر کے ملک و قوم کا نام بلند کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ایک ایسا ایپ متعارف کروانا چاہیے تھا جس کے ذریعے ہم اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ ڈال سکتے، لیکن یہ نہیں ہوا۔
متحدہ عرب امارات کی کاروباری شخصیت عمران خان نے قومی انتخابات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں ایک سیاسی جماعت کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل بے شمار ہیں اور بنیادی مسئلہ بغیر کسی تربیت کے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا بیرون ممالک میں روزگار کی تلاش میں جانا ہے، جن کو کمپنیاں اور گروہ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ آئندہ حکومت اس کے لیے دیگر ممالک کی طرح ایک پالیسی اور نظام مرتب کرے اور یہاں موجود سفارت خانوں کو بھی اس کا حصہ بناتے ہوئے ان کو بھی ذاتی بنیادوں پر ویزے جاری کرنے والی کمپنیوں کے وزٹ کے بعد این او سی جاری کرنے کا پابند کرے۔ تو پاکستانی لٹنے سے بچ سکتے ہیں۔ آنے والی حکومت کو اس بارے میں سوچنا ہوگا۔
طاہر منیر طاہر 25 سال سے سعودی عرب اور امارات میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوںکو کچھ نہیں دیا۔ وہ یہاں آکر وعدے بہت کرتے ہیں لیکن نہ ہی کسی نے ہمارے مسائل حل کیے اور نہ ہی کسی سے توقع ہے کہ وہ کریں گے۔ آنے والی حکومت کے بارے میں ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ بہتر حکومت آئے جو پاکستان کے ساتھ اوورسیز کا بھی خیال رکھے۔ ان کے بارے میں سوچے اور قانون سازی کرے۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی پاگل ہیں، جو پاکستان سے یہاں دوروں پر آنے والے وزیروں اور حکومتی اہلکاروں کو عزت و احترام دیتے ہیں لیکن اوورسیز کے بارے میں کبھی قانون سازی نہیں کی گئی۔
عبدالرئوف ابوظہبی میں خدمات سرانجام دے رہیں ان کا کہنا ے کہ پاکستان سے باہر آکر ہمیں اپنے وطن کی قدر اور مقام کا پتہ چلتا ہے۔ اگر ہمیں وہاں پر روزگار کے مواقع میسر ہوں تو یہاں آکر ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی تبدیلی کا نعرہ لگاکر ہر کوئی ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔اگر ان لیڈروں کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ہمدردی اور دل چسپی ہوئی تو ووٹ کا حق تسلیم کرتے ہوئے قانون سازی کرتے اور ہم یہاں امارات میں بیٹھ کر ووٹ ڈالتے۔ اب ہمارے لیے اہل خانہ کےساتھ جاکر ووٹ ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ 80 لاکھ پاکستانیوں کو جان بوجھ کر اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ پاکستان میں جو بھی حکومت آئے اوورسیز کا بھی خیال رکھے۔