سیاست میں نووارد عمران خان نے 1997ء الیکشن میں شکست کے بعد کہا، میرا ووٹر اسکولوں میں ہے۔ اس کا نام ابھی ووٹر لسٹ میں نہیں آیا۔ اکتوبر2011ء لاہور کے جلسے میں سب نے دیکھا کہ اس نوجوان ووٹر نے دنیا بھر کی اسٹیبلشمنٹ کو چونکا دیا اور اسے من پسند لوگوں کو اقتدار میں لانے کیلئے دھاندلی کی نئی قسمیں دریافت کرنا پڑیں۔2013ء کے انتخاب کے فوراً بعد اسپتال میں لیٹے زخمی عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگا کر قومی اسمبلی کے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں ان چاروں میں بے قاعدگی پکڑی گئی۔
2018ء کے انتخابی نتائج سامنے آنے میں صرف ایک دن باقی ہے۔ مختلف سروے نتائج، ماہرین کی آراء، مبصرین کے تبصرے سن کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ لکھاری اور تبصرہ کار، تجزیہ نگار ٹھوس حقیقت، عوام کے رجحان اور نفسیات جانے، سمجھے بغیر ایسی رائے کا اظہار کیوں کرتے ہیں جس کی قلعی صرف ایک دن بعد کھلنے والی ہے۔ گزشتہ ہفتے عرض کیا تھا کہ عمران خان اس انتخاب میں کامیاب ہونے والے ہیں۔ انہیں ایوان میں واضح برتری حاصل ہو جائے گی۔ کیوں؟ اس لئے کہ تحریک انصاف کی قابل ذکر سیاسی موجودگی کو 2008ء میں محسوس کیا گیا تھا۔ بائیکاٹ کی وجہ سے وہ انتخاب میں حصہ نہ لے سکے۔ 2008ء سے 2013ء تک پانچ برس کی مدت میں دو کروڑ نیا ووٹر فہرستوں میں شامل ہوا۔ اسی نئے ووٹر اور پیپلز پارٹی سے مایوس ہو کر تحریک انصاف میں آنے والوں پر سارا انحصار تھا۔ مقابلے میں تجربہ کار ٹیم زیر زمیں حیلے، پس دیوار سازشیں پھر بھی جوڑ برابر کا تھا مگر نتیجہ سب جانتے ہیں۔2013ء کے پانچ سال بعد مزید دو کروڑ ووٹر فہرست میں آیا۔ اس میں جو بھی پولنگ اسٹیشن تک جائے گا۔ ان میں کم از کم ستر فیصد حصہ تحریک انصاف کا ہو گا۔ اس حقیقت سے خانہ زاد سروے اور تنخواہ دار تبصرہ نگار بھی انکار نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو اپنے حریفوں پر واضح برتری کیلئے یہ نیا ووٹر ہی کافی ہے۔ دوسری وجہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا حکومتوں سے دستبرداری کے بعد شہری انتظامیہ کی کھلی حمایت سے محروم ہو جانا ہے جس کے وہ تین دہائیوں سے عادی ہیں۔ اس غیبی مدد سے محرومی کی وجہ سے انہیں جلسوں کے بجائے ورکرز کنونشن کرنا پڑے ہیں۔ تیسرا بڑا نقصان افواج پاکستان کے خلاف یکطرفہ محاذ آرائی سے ہوا۔ افواج پاکستان عوام میں مقبول ترین ادارہ ہےچنانچہ فوج سے براہ راست تعلق رکھنے والے موجود اور سابق فوجیوں کی تعداد تیس لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ یہ سب تحریک انصاف کو جائیں گے۔ چوتھا اہم عنصر مذہبی ووٹر ہے جو روایتاً مسلم لیگ کا طرف دار تھا۔ ختم نبوت کے قانون میں چھیڑ چھاڑ کے بعد سب مسلم لیگ سے دور چلا گیا۔
دفتروں میں بیٹھ کر تبصرہ کرنے والے اگر کسی گائوں، قصبے یا قریب گلی میں ایسے ووٹرز تلاش کریں جنہوں نے گزشتہ انتخاب میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور پانچ برس کے بعد اس نے اپنا ذہن بدل کر کسی دوسری پارٹی کی حمایت شروع کردی ہو۔ یہی کچھ دوسری پارٹی کے ووٹر کے بارے میں معلوم کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً انہیں پتہ چل جائے گا کہ تحریک انصاف کا کوئی حامی آج تک دوسری جماعتوں کی طرف نہیں گیا۔ آخری اور سب سے اہم عنصر ’’معلق‘‘ ووٹر ہے۔ جس کی تعداد مختلف سروے میں پچیس سے اٹھائیس فیصد بتائی گئی ہے۔ یہ ووٹر کسی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ جیتنے والے حکومت ساز کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ نظریاتی ہے نہ انقلابی، بس اپنا ووٹ ہارنے والوں پر ضائع نہیں کرتا۔ گزشتہ انتخاب میں یہ آخری دنوں اسٹیبشلمنٹ کی حمایت یافتہ مسلم لیگ (ن) کی طرف پلٹ گیا۔ انہی چار وجوہات کو سامنے رکھ کر پچھلے ہفتے انتخابی نتائج کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلم لیگ نواز خسارے میں ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کی ایم ایم اے اور اچکزئی کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ سیٹیں تحریک انصاف اکیلے جیت جائے گی۔ جنوبی پنجاب کے آزاد اراکین، سندھ کا جی ڈی اے، کراچی اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اس کے علاوہ ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں اکثریت لینے اور حکومت بنانے میں عمران خان کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ البتہ حکومت بن جانے کے بعد قانون سازی کیلئے سینیٹ اس کی سدِراہ ہوگی۔ جہاں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کو دوتہائی سے کہیں زیادہ اکثریت حاصل ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان بھر میں خیبرپختونخوا کے لوگ سیاسی اعتبار سے زیادہ بالغ نظر اور ہوشیار ہیں۔ وہ کسی بھی حکومت کی بے عملی کو تادیر برداشت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت وہاں دوسری مدت کیلئے حکومت نہیں بنا پائی۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے تحریک انصاف مشکل میں پڑ جائے گی۔ گزشتہ سوموار بلور خاندان میں شہید باپ کے شہید بیٹے ہارون بلور کی شہادت پر خراج تحسین پیش کرنے اور دعائے مغفرت کیلئے پشاور کا سفر اختیار کیا۔ اتفاق سے ہمارا قیام ’’یکہ توت‘‘ میں تھا جہاں چند دن پہلے دھماکے میں نوجوان ہارون بلور شہید ہوئے۔ ہمارے میزبان سید جمال حسنین ’’یکہ توت‘‘ کی زیارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی سید آغا، اس درگاہ کے سجادہ نشین، بھی تشریف رکھتے تھے۔ جمال حسنین تحریک انصاف کے پرجوش حامی اور سرگرم کارکن ہیں۔ البتہ ان کے بھائی ابھی تک ذوالفقار علی بھٹو کے’’مومنِ مبتلا‘‘ ہیں اور پیپلز پارٹی کے پُرجوش مددگار۔ ان کے مہمان خانے میں موجود دیگر حاضرین تحریک انصاف کے طرف دار تھے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے شاہ صاحب کو ان کے بیٹے نے فون پر بتایا کہ وہ پاکستان بھر میں پہلا ووٹ ڈالنے جارہے ہیں یقیناً اپنی سرکاری مصروفیت کی وجہ سے بذریعہ ڈاک اپنا ووٹ دے رہے ہوں گے۔ شاہ صاحب نے بیٹے سے پوچھا ووٹ کسے دو گے؟ جواب ملا، تحریک انصاف کو۔ یہ باپ کی حکم عدولی نہیں تھی بلکہ پختون معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی کا مظہر ہے۔
حاضرین کی متفقہ رائے تھی کہ تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلی میں پہلے کے مقابلے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔ اے این پی اور شیر پائو خسارے میں رہیں گے۔ پشاور سے واپسی بذریعہ جی ٹی روڈ اختیار کی تاکہ کچھ سن گُن رستے میں لی جائے۔ اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق، ان کے بیٹے حامد اور بھتیجے عرفان سے ملاقات ہوئی۔ ان کا حقانی دارالعلوم اور مسجد پہلے بھی وسیع وعریض تھی مگر اب اس نے بڑی وسعت اور شان حاصل کرلی ہے۔
ایک دوست جو پی ٹی آئی سے الیکشن کا ارادہ رکھتے تھے مگر مسلم لیگ نواز کی مقبولیت سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ پایا، گزشتہ چند دن تک بڑے مسرور اور پرجوش تھے کہ اپنی نشست آسانی سے جیت جائیں گے، ان سے ملاقات ہوئی تو کچھ بجھے بجھے نظر آئے۔ دفتر میں بھی پہلی سی رونق نہ تھی۔ کہا، الیکشن کی سنائیے؟ بولے چند دنوں سے لڑکے، بالے اچانک کہیں سے نکل کر سرگرم ہوگئے ہیں۔ ان نوجوانوں نے ہمیں پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ دعا کیجئے اِن شاء اللہ جیتنے کی صورت نکل آئے گی۔
ہمت بلند تھی مگر افتاد دیکھنا
چپ چاپ آج محوِ دعا ہو گیا ہوں میں
راولپنڈی سے دینہ، جہلم، سرائے عالمگیر، کھاریاں، لالہ موسیٰ، میاں جی کے ہوٹل میں بہت پرانے دوست لالہ فضل منتظر تھے۔ ملاقات ہوئی، انتخاب کے احوال پوچھے تو وہ جعفر اقبال، مسلم لیگ اور قمر الزمان کائرہ کی سرگرمیوں کا ذکر کرنے لگے۔ ابھی ابھی نوجوان بلاول زرداری پریس کانفرنس سے فارغ ہوئے تھے۔ لالہ نے کہا تحریک انصاف کے سید فیاض الحسن، قمرالزمان کائرہ اور جعفر اقبال میں سخت مقابلہ ہو گا۔ عرض کیا، لالہ ذرا گوجر برادری سے تھوڑا نکل کر فرمائیے تو اپنی مخصوص دھیمی اور پرکشش مسکراہٹ سے بہلانے کی کوشش کی۔ حاجی اسلم صنعتکاری کے ساتھ مقامی روزنامہ شائع کرتے ہیں وہ ہاتھ دھونے کیلئے اٹھے اور واپس آتے ہوئے ہوٹل کے ملازمین سے خبر لائے کہ پیپلز پارٹی کے کائرہ نیک نام ہیں۔ اس لئے تقریباً بیس ہزار ووٹ لے جائیں گے، جعفر اقبال چالیس ہزار دونوں گوجر اپنے ووٹ تقسیم کریں گے۔ تحریک انصاف کے شاہ صاحب جو سابق ایم این اے منظور احمد کے بھائی ہیں۔ تقریباً ساٹھ ہزار ووٹ لے کر جیت جائیں گے۔یہ عوامی رائے تھی۔
سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی چھ سے آٹھ سیٹیں بھی یقیناً بڑی خبر ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)