• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے تو یہ ہالی وڈ کی فلموں میں ”حسینوں کا جزیرہ“ ٹائپ فلموں میں دکھایا جاتا تھا کہ ایک علاقے پر خواتین کی حکومت ہے اور پھر افسانوی رنگ میں اس کے رنگا رنگ پہلو دکھائے جاتے تھے لیکن امریکہ کے حالیہ انتخابات میں نیو ہمپشائر کی ریاست میں یہ عملاًہو چکا ہے اور وہاں مکمل طور پر مادری نظام حکومت قائم ہو گیا ہے۔ ریاست کی نہ صرف نئی گورنر ایک خاتون ہیں بلکہ دو سینیٹرز اور دو کانگریس ممبران بھی صنف نازک (جو اب نازک کے زمرے سے خارج ہو جانی چاہئیں) سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس ریاست میں یہی پانچ چوٹی کے عہدے ہیں جن میں ہر ایک پر خواتین براجمان ہیں۔ نیو ہمپشائر روشن خیالی کی فتح اور ری پبلکن پارٹی کی قدامت پرستی کی شکست کا استعارہ ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے تماتر منفی پروپیگنڈہ و افسانہ طرازیوں کے باوجود صدر اوباما کی جیت مکمل اور حتمی تھی۔ وہ نہ صرف الیکٹرل ووٹوں (کانگریس اور سینٹ کے کل ممبروں کی تعداد کے برابر) میں اپنے حریف سے بہت آگے تھے بلکہ مقبولیت میں بھی جیتے اگرچہ فرق تھوڑا کم تھا۔ اہم ترین امر یہ ہے کہ امریکہ کے2012ء کے انتخابات میں صدر اوباما کی جیت سے زیادہ اہم ری پبلکن پارٹی کی مطلق نظریاتی شکست تھی۔ اس الیکشن میں بہت سے پاکستانی پنڈتوں نے پیشگوئی کرتے ہوئے فاش غلطیاں کیں جس کا سبب امریکی سیاسی نظام سے لاعلمی کے علاوہ خود فریبی کا عنصر بھی شامل تھا۔ پاکستان سمیت ہر ملک میں کسی پارٹی کی نظریاتی فتح اور شکست کا اندازہ مقامی الیکشنوں کی بجائے ملکی سطح پر ظاہر ہونے والی آراء سے ہوتا ہے ۔ امریکہ کے حالیہ الیکشنوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نہ صرف صدر فتحیاب ہوئے بلکہ اس نے خلاف توقع سینٹ میں بھی اپنی سیٹیں بڑھا لیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ امریکہ میں سینیٹر پوری ریاست یا صوبے کے ووٹوں سے منتخب ہوتاہے۔ البتہ ری پبلکن پارٹی نے کانگریس میں اپنی برتری برقرار رکھی کیونکہ کانگریس مین ایک مخصوص حلقے سے منتخب ہوتے ہیں اور ان کے الیکشن میں مقامی سیاست کے اثرات فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں ہم ملکی اور ریاستی سطح کے الیکشنوں کا تجزیہ کرتے ہوئے دکھانا چاہتے ہیں کہ کس طرح اور کیوں ری پبلکن پارٹی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔صدارتی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کے نظریئے کے چار بڑے ستون تھے ۔ (ا) صدر اوباما کا عوامی صحت کا قانون نامنصفانہ ہے (ب) امیروں اور کارپوریشنوں کو ٹیکس کی چھوٹ دے کر بیروزگاری ختم کرنا ضروری ہے(ج) ہر قیمت پر ملکی قرضے کو کم کرنا چاہئیں (د) اسقاط حمل پر مکمل پابندی لگانا فرض مطلق ہے۔ انہی چار بڑے نعروں پر ری پبلکن پارٹی نے2010ء میں کانگریس کا الیکشن جیتا تھا۔ ری پبلکن پارٹی کا نقطہ نظر تھا کہ عوامی صحت میں ہر شہری کو صحت کی انشورنس لینے پر مجبور کرنا فرد کی آزادی کے خلاف ہے۔ اسی طرح امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانے کی وجہ سے سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے لہٰذا اس کا الٹا کرنا ضروری ہے۔ ری پبلکن پارٹی امریکہ کے بڑھتے ہوئے قومی قرضے پر بھی بہت شور مچا رہی تھی، اس کا کہنا تھا کہ عوام کو دی جانے والی سہولتیں ختم کردینا چاہئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ری پبلکن قومی قرضے کم کرنے کے لئے دفاعی اخراجات گھٹانے کی بجائے بڑھانا چاہتی تھی۔
ری پبلکن پارٹی کے برخلاف ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف تھا کہ صحت کی سہولت ہر انسان کا بنیادی حق ہے اس لئے ہر صاحب حیثیت کو انشورنس خریدنا چاہئے اور کم آمدنی والے خاندانوں کو یہ سہولت دینا حکومت کا فرض ہے۔ ٹیکس کے بارے میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف تھا کہ امیروں پر ٹیکس بڑھا کر قومی قرضوں میں کمی کی جانی چاہئے۔ مزید برآں ڈیموکریٹک پارٹی جس معاشی نظریئے پر عمل کر رہی تھی اس کے تحت معاشی تنزل کے زمانے میں حکومت کو قرضے لیکر سرمایہ کاری بڑھانا چاہئے اور جب معیشت بحال ہو جائے تو ٹیکسوں کی آمدنی بڑھنے سے قرضے خود بخود ہی ادا ہو جاتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں بھی یہ حق عورت کو دینے پر اصرار کرتی ہے کہ بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ (اسقاط حمل) خود عورت کو ہی کرنا چاہئے۔
مذکورہ تقابلی مطالعہ اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ قاری کو علم ہو کہ امریکہ کے حالیہ الیکشن میں کونسا نظریہ جیتا اورکونسا ہارا ہے۔ امریکہ میں ووٹروں نے یہ فیصلہ دیا کہ صدر اوباما کے فیصلے بنیادی طور پر درست تھے اور اگرچہ حالات مکمل طور پر درست سمت میں نہیں چل پا رہے لیکن وائٹ ہاوٴس نے ایسا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ امیروں پر ٹیکس بڑھانے وغیرہ کے معاملات پر بھی ووٹروں کی اکثریت نے ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیا۔ یہ تو اب سب جانتے ہیں کہ اصل میں الیکشن امریکہ کی دس ریاستوں (جن کو انتخابی جنگ کا مرکز کہا جاتا ہے ) میں ہی ہو رہا تھا کیونکہ باقی چالیس ریاستوں کے نتائج پہلے ہی معلوم تھے۔ صدر اوباما دس میں سے نو ریاستوں میں جیتے۔ اسی طرح بہت سی ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹرز بھی غیر متوقع طور پر جیت گئے۔ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی نظریاتی جیت کا دوسرا بڑا ثبوت تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر بہت سی خواتین فتحیاب ہوئیں اور اب سینٹ میں ان کی تعداد بیس (ری پبلکن سمیت) تک جا پہنچی ہے۔ اس الیکشن میں وسکانسن ریاست سے پہلی ہم جنس سینیٹر ٹیمی بالڈون منتخب ہوئیں، میسا چوسٹ سے شعلہ بیاں بائیں بازو کی علمبردار لاء پروفیسر الزبتھ وارن اپنے مقبول مد مقابل کو ہرا کر سینٹ میں پہنچ گئی ہیں اور اسی الیکشن میں پہلی ایشیائی خاتون میزی ہورونو ہوائی سے سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔ خواتین کی بھاری تعداد کے علاوہ میری لینڈ پہلی ریاست ہے جہاں عوام نے ریفرنڈم میں ہم جنسیت کے حق میں ووٹ دیا اور بہت سی ریاستوں میں مروانا کے استعمال کو قانونی حیثیت دے دی گئی۔ ری پبلکن پارٹی کی شکست کے متذکرہ مظاہر کے علاوہ یہ بھی اہم ہے کہ تقریباً تمام اقلیتوں نے اس الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیا۔ ری پبلکن پارٹی کے امیگریشن کے قانون کے تحت تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ اسی لئے لاطینی امریکہ کے ہسپانوی نسل کے تارکین وطن کی رہنمائی میں تمام اقلیتوں نے ری پبلکن پارٹی کو رد کر دیا۔ سیاہ فام ووٹروں سمیت تمام اقلیتی گروپوں (بشمول پاکستانیوں کے) نے ڈٹ کر ری پبلکن پارٹی کی نسل پرستی کی مخالفت کی۔ الیکشن کے نتائج سے کچھ ایسا لگتا ہے کہ ری پبلکن پارٹی کو56 سال سے زائد عمر کے قدامت پرست سفید فام عیسائیوں کی پارٹی سمجھا جانے لگا ہے جس سے تمام روشن خیال امریکی، خواتین اور اقلیتیں خوفزدہ ہیں۔ اس الیکشن میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ووٹر ڈیموکریٹک پارٹی کی محبت میں کم اور ری پبلکن پارٹی کے خوف کی وجہ سے زیادہ اس کے مخالف ہوئے۔
تاریخی طور پر یہ الیکشن امریکہ کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی کی ابتدا کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اگر ری پبلکن پارٹی نے اپنی موجودہ نظریاتی سمت تبدیل نہ کی تو اس کا مستقبل کافی مخدوش ہو جائے گا۔ اب امریکہ میں نسلی اقلیتوں کی مدد کے بغیر کوئی الیکشن جیتا نہیں جا سکتا۔ اگر ری پبلکن پارٹی 65 سال سے زائد عمر کے سفید فام قدامت پرست عیسائیوں کی ہی پارٹی بنی رہی تو کچھ ہی الیکشنوں میں اس کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہو جائے گی۔
حرف آخر: بر سبیل تذکرہ جس طرح کے اتحادی الیکشن میں جیت کر آئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی کانگریس اور سینٹ میں انتہا پسندی، دہشت گردی، مذہبی منافرت، چائلڈ لیبر اور غیر جمہوری اقدامات کی مخالفت پہلے سے کہیں زیادہ ہوگی۔
تازہ ترین