• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نئی حکومت کی پہلی ترجیح، جمہوری تسلسل اور ہم آہنگی کا فروغ ہونا چاہیے

تمام خدشات، سازشوں اور خواہشات کے باوجود 25جولائی کو پرامن انتخابات ہو گئے،لوگوں کا جوش و خروش بھی بھر پور تھااور اب جمہوریت کی مضبوطی کے لئے پارلیمنٹ میں جانے والی تمام سیاسی جماعتوں کو طے کرنا ہو گا کہ وہ کس انداز میں جمہوری استحکام کےلئے اپنا کردار ادا کرتی ہیں چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں۔ دونوں صورتوں میں وہ کس انداز میں سامنے آتی ہیں، یہ ابھی آنیوالے دنوں میں پتا چل جائے گا ۔ الیکشن سے قبل ملکی معیشت حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کے برعکس غیرتسلی بخش رہی ،کرنسی مارکیٹ میں امریکی ڈالرآپے سے باہر ہو تا جا رہا ہے اور پاکستانی روپے کی بے قدری بھی بڑھتی جارہی ہے، اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائرکا گراف مسلسل نیچے آرہا ہے، غیر ملکی قرضے بڑھ چکے ہیں، افراط زر بھی اپنی جگہ موجود ہے اورڈالر مہنگا ہونے سے اشیاءصرف کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں عوام کوغربت ، بیروزگاری ، لوڈشیڈنگ، دہشتگردی اور جرائم کے خاتمے کی نوید سنائی گئی تھی۔ لیکن تقریباََ اب بھی عوام اِنہی مسائل اور مشکلات سے دوچارہیں، بظاہر انہیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔ شدید گرمی کے با وجود بعض جگہوں پر لوڈ شیڈنگ اب بھی جاری ہے۔ بیروزگاری کا عفریت نوجوانوں کو جرائم کی دلدل میںدھکیل رہا ہے۔ الیکشن 2018 ءپاکستان میں سابقہ انتخابات سے مختلف رہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 2013 ءکے مقابلے میں دہشتگردی میں قدرے کمی آئی، جس کا کریڈٹ سیاسی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی جاتا ہے۔ تاہم کراچی جیسے شہر میں اسٹریٹ کرائم، چوری، قتل وغارت گری کا سلسلہ کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ اس مرتبہ انتخابات کے حوالے سے سیاسی منظر نامے پر کشید گی بہت زیادہ رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف بھی ان انتخابات میں پوری قوت کے ساتھ نمودار ہوئی ہے، دوسری پارٹیوں سے لوگ جوق در جوق اس پارٹی میں شامل ہوئے ، اس طرح انتخابات سے پہلے ہر طرف تضاد ہی تضاد رہا ہے ۔سیاسی رسہ کشی عروج پر رہی۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد کیا وہ حقیقی تبدیلی بھی آئےگی جس کی امید لوگ ستر سالوں سے لگائے بیٹھے ہیں آنے والے دنوں میں اس کا بھی پتہ چل جائے گا ۔پاکستان کی اکثریتی عوام ایک طرف تعلیم کی کمی اور تعلیمی معیار کے پست ہونے کے سبب اپنے سیاسی شعور سے بیگانہ ہیں تو دوسری جانب جو محدود تعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ یا تو غم روزگار اور اپنے روزمرہ زندگی کے مسائل میںالجھا ہوا ہے کہ اُسے معاشرے کے سیاسی دھارے کی سمت پر توجہ مرکوز کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا یا پھر جو آٹے میں نمک کے برابر سیاسی طور پر باشعور افراد ہیں انہیں ملک و قوم کے ساتھ مخلص اور ایماندار سیاسی قیادت کے سخت فقدان کا سامنا ہے۔ ملک اس وقت بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل کا شکار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست اور اسکے اداروں کے درمیان مکمل ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔نئی آنیوالی قیادت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک آئینی استحکام کی بحالی بھی ہے، کیونکہ اسکے بغیر جمہوری نظام کی بقا خطرات کا شکار رہے گی۔ حالیہ واقعات کے پس منظر میں ملک میں اجتماعی تلخی میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا نئی منتخب حکومت کو سب سے پہلے ان زخموں کو مندمل کرنا ہوگا اور چارہ گری کرتے ہوئے قومی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دیناہوگا ورنہ بداعتمادی کی فضا قائم رہے گی۔ نئی حکومت اپنی توجہ زیادہ خوشیاں منانے کی بجائے عوامی مشکلات ، مسائل اور ملکی معیشت کے استحکام کےلئے عملی منصوبہ بندی کا مظاہرہ کرنے پر مذکور کرے ۔ ان تمام مسائل کا حل قومی ہم آہنگی اور شراکت کے ساتھ نکالنا ہوگا۔ سکیورٹی مسائل کے علاوہ ملک کی اقتصادی صورت حال بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو گی۔اسی طرح اگر نئی حکومت نے پانی کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے تو اگلے چند برسوں میں پاکستان بحرانی صورت حال کا شکار ہو جائے گا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے گلیشیئر بھی ہیں اور مون سون کی بارشیں بھی کافی ہوتی ہیں۔ لیکن ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعداد ناکافی ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں فوری طور کام کرنا پڑے گا اور اس حوالے سے عوام کو معاملے کی نزاکت سے آگاہ کرنے کی بھی ضرورت پڑے گی۔چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے نئے ڈیمز بنانے کی جو پیش قدمی کی گئی ہے اللہ کرے وہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچے۔ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اس موقع کو صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ملک کو اس گرداب سے نکالے ۔ آمین

تازہ ترین
تازہ ترین