• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

منتخب حکلومت کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟

رانا غلام قادر

آج پاکستان پارلیمانی سیاست کے نئے عہد میں داخل ہو رہا ہے۔ تمام تر خدشات کے باوجود عام انتخابات منعقد ہو گئے۔ 2008 میں آنے والی قومی اسمبلی نے5سال کی مدت پوری کی۔2013میں آنے والی قومی اسمبلی نے 5 سال مدت پوری کی اور ائینی تقاضوں کے مطابق 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اب نئی منتخب حکومت کو آئین کے مطابق اختیارات منتقل ہو جائیں گے۔ عبوری حکومت تحلیل ہو جائے گی۔ جس نے بہر حال عام انتخابات کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں الیکشن کے انعقاد کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے، پاک فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز نے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے کردار ادا کیا۔ اگرچہ الیکشن سے قبل مقتدر حلقوں کی جانب سے الیکٹیبلز (Electables) کی وفاداریاں تبدیل کرانے کے الزامات لگائے گئے۔ پری پول رگنگ اور انجینئرنگ یا مینپولیشن کےالزامات سامنے آئے مگر مقام شکر ہے کہ مجموعی طور پر الیکشن2018 پرامن ماحول میں منعقد ہو گئے۔ دہشت گردی اور لڑائی جھگڑوں کے چند واقعات ہوئے مگر یہ ہر الیکشن میں ہوتا ہے البتہ قومی سیاسی قیادت کی جانب سے جلسوں میں غیر مہذہب زبان استعمال کرنے بلکہ بدکلامی سے عوام میں سیاستدانوں کا امیج متاثر ہوا ہے الیکشن کمیشن نے بجا طور پر اس کا نوٹس لیا ہے ۔ عمران خان، پرویز خٹک، سردار ایاز صادق اور مولانا فضل الرحمن اس کی زد میں آگئے ہیں البتہ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نوجوان ہونے کے باوجود کم از کم اس اعتبار سے باوقار اور سنجیدہ سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں کہ انہوں نے مخالف سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے نپا تلا لب و لہجہ استعمال کیا ہے۔ بہر حال اب الیکشن2018 کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے انتخابی نتائج سامنے آچکے ہیں۔ ووٹرز نے حق رائے دہی کا اپنا آئینی حق استعمال کر لیا ہے۔ الیکشن کے انعقاد سے ملک میں جاری جمہوری عمل مزید مستحکم ہوا ہے۔ اب تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ خوش دلی سے انتخابی نتائج کو قبول کر لیں اور آگے بڑھیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس رواں ہفتے ہو گا جس میں نو منتخب ممبران رکنیت کا حلف اٹھائیں گے۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کا انتخاب ہوگا۔ نئی سیاسی صف بندیاں شروع ہو گئی ہیں۔ حکومت سازی کے لئے مختلف جماعتوں میں رابطے شروع ہو گئے ہیں مخلوط حکومت کی تشکیل پر بعض حلقوں کے اعتراضات بلا جواز ہیں کیونکہ یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کے مترادف ہیں، صوبوں اور مرکز میں عوام نے جس کو مناسب سمجھا اپنی نمائندگی کے لئے حق حکمرانی دیا ہے جمہوری اور پارلیمانی اقدار کا تقاضا یہ ہے کہ جس پارٹی کو عوام نے مینڈیٹ دیا اس کا احترام کیا جائے۔ ماضی قریب میں یعنی2013 کے الیکشن میں سندھ میں پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کامیابی سے پانچ سال مکمل کئے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے ساڑھے چار سال حکومت کی اور آخری چند مہینوں میں عدم اعتماد کے بعد بھی بہر حال جمہوری عمل کو تسلسل برقرار رہا۔ الیکشن 2018 کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں نواز شریف کا عنصر کافی حد تک نمایاں نظر آتا ہے۔ نیب کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو سزا سنائے جانے کے بعد بعض حلقوں کا یہ خیال تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز دونوں چونکہ لندن میں ہیں اور ان کے پاس کلثوم نواز کی علالت کا جواز بھی موجود ہے اس لئے وہ پاکستان نہیں آئیں گے۔ جہاں اڈیالہ جیل کی کوٹھڑی ان کی منتظر ہے مگر نواز شریف اور مریم نواز نے جرات کا مظاہرہ کیا۔ وہ ملک واپس آئے گرفتاری دی اور اڈیالہ جیل سدھار گئے انہوں نے یہ اچھا سیاسی فیصلہ کیا ورنہ مسلم لیگ (ن) کو ناقابل تلافی سیاسی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ ان کے جیل میں رہنے سے ہمدردی کا ووٹ مسلم لیگ(ن) کو ملا۔ اگرنواز شریف کی ضمانت ہو جاتی اور انہیں آخری تین چار دن انتخابی مہم چلانے کا موقع مل جاتا تو وہ نتائج پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی سے خطاب میں یہ انکشاف کیا مقتدر حلقوں کی جانب سے چیف جسٹس کو پیغام دیا گیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ نواز شریف اور مریم نواز الیکشن سے پہلے جیل سے باہر آئیں اس بات کی صداقت کو خدا بہتر جانے لیکن ایک سرونگ جج کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات بہر حال ایک سیریس معاملہ ہے ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اعلی عدلیہ کے فاضل جج کسی ادارے کا نام لے کر یہ کہیں کہ وہ عدلیہ پر دبائو ڈال رہے ہیں اس معاملے کی انکوائری ہوئی تو دودھ کادودھ اورپانی کا پانی ہوجائے گا۔ الیکشن 2018میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا۔ سیاسی جماعتوں کا بالخصوص مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل میسجز بناتے اور لمحوں میں یہ پیغامات کروڑں لوگوں تک پہنچ جاتے ۔ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں کرپشن کو موضوع بنائے رکھا۔ مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کی انتخابی مہم میں عدم شرکت کا نقصان ہوا جو پہلے اہلیہ کی علالت کے لئے لندن چلے گئے اور وہاں سے اڈیال جیل چلے گئے۔ مسلم لیگ (ن) کا انحصار شہباز شریف پر رہا جو اب پارٹی کی صدر ہیں لیکن ووٹ بینک تو بہر حال نواز شریف کا ہے اس لئے جو ٹمپو نواز شریف بنا سکتے تھے وہ شہباز شریف نہیں۔ شہباز شریف نے خدمت کی سیاست کے نعرے پر زیادہ زور دیا اور پنجاب میں 10سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگے۔ بلاول بھٹو سیاست میں نوارد ہیں ابھی نوٹس لے کر تقریر کرتے ہیں مگر ان کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے وہ میڈیا کے سوالوں کا جواب اعتماد سے دینے لگے ہیں انہوں نے پورے ملک میں انتخابی مہم کی خود قیادت کی جس سے ان کی گرومنگ ہو گئی ہے وہ قومی سیاست میں اب نیا کردار ہیں اگر آصف علی زرداری نے انہیں آزادی سے کام کرنے دیا تو وہ اچھا اضافہ ثابت ہوںگے۔ وہ نوجوان ہیں تعلیم یافتہ ہیں اور ترقی پسند خیالات رکھتے ہیں۔ ان پر کوئی الزام بھی نہیں ہے۔ ایم ایم اے نے بھی مہم موثر انداز میں چلائی اور اسلامی نظام کے نام پر ووٹ مانگے۔ دینی جماعتوں کے اس اتحاد کو صرف مذہبی حلقوں میں پذیرائی مل سکی ہے لیکن اب پارلیمنٹ میں اس اتحاد کا اہم کردار ہو گا۔ الیکشن میں کئی برج الٹے ہیں۔ کئی اپ سیٹ دیکھنے کو ملے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا بھی محاسبہ کرنا چاہیئے کہ انہوں نے پارٹی منشور کا تاخیر سے اعلان کیا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور پر کم فوکس کیا الزامات پر زیادہ زور دیا۔ یہ کوئی قابل رشک بات نہیں ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ ہوم ورک کا نہ ہونا ہے۔ اس الیکشن میں لوٹا سیاست کا بہت تذکرہ ہوا کیونکہ ایک پارٹی چھوڑنے والوں کو دوسری پارٹی نے فوراً ٹکٹ دیدیا۔ اب حکومت سازی کا عمل شروع ہو رہا ہے جس میں آزاد امیدواروں کا بھی اہم کردار ہوگا جن کا رجحان ہمیشہ کی طرح حکومتی بینچوں کی جانب ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی منتخب حکومت کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج معاشی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے شعبوں میں چیلنجز نہیں، خارجہ پالیسی، زراعت، سی پیک، توانائی، امن و امان اور گڈ گورننس کے شعبوں میں بھی نئی حکومت کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے اگر ملکی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو وہ نہایت ابتر حالت میں ہے ملکی معیشت کا سب سے بڑا چیلنج کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے۔ جو 17 ارب 99 کروڑ 40لاکھ ڈالر ہے۔ یہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے تجارتی خسارہ 37ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو ملک کی بلند ترین سطح ہے ملکی برآمدات 2013 میں 25 ارب ڈالر تھیں جو 2018 میں بڑھنے کی بجائے کم ہو کر22ارب 30لاکھ ڈالر تک آگئیں۔ اس کے برعکس درآمدات میں اضافہ ہوا۔ 2013میں درآمدات 42ارب ڈالر تھیں جو 2018میں بڑھ کر 60ارب 89کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں اس وقت تجارتی خسارہ 37 ارب 67کروڑ ڈالر ہے جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ29200 ارب روپے ہے۔ 2013 میں یہ قرضہ 14318 ارب روپے تھا۔ غیرملکی قرضہ 2013 میں 42ارب ڈالر تھا جواب 92 ارب ڈالر ہو گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ نومبر 2016میں زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر گئے تھے جو 24ارب 50کروڑ ڈالر ہے اب یہ ذخائر کم ہو کر 15ارب ڈالر پر آگئے ہیں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہوئی ہے اورڈالر 130روپے تک اڑان برچکا ہے۔روپے کی قدر کو مستحکم کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ نئی حکومت کو جو بیمار معیشت ملی ہے اس کے پاس صرف ایک آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے رجوع کرے۔ آئی ایم ایف جب بھی قرضہ دیتا ہے تو اپنی شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ تجارتی خسارہ سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے سروسز سیکٹر پر توجہ دے۔ پیداواری لاگت میں کمی لائے تاکہ پاکستانی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں بہتر مسابقت کا ماحول مل سکے۔ نئی حکومت کا ایک اہم چیلنج یہ ہوگا کہ کس طرح ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور لوٹی ہوئی رقم واپس لی جائے۔ الیکشن میں نیب کے کردار کو بھی ہدف کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ نیب کو مقتدر حلقے سیاسی توڑ پھوڑ کیلئے استعمال کر رہے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے فیصلہ کیا کہ 25 جولائی تک کسی امیدوار کو گرفتار نہ کیا جائے۔ احتساب کا عمل بھی شفاف ہونا چاہئے اور بلاامتیاز ہونا چاہئے تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ سپریم کورٹ نے آف شور کمپنیوں کا معاملہ سماعت کیلئے منظور کیا مگر فیصلہ صرف نواز شریف کیس کا سنایا گیا آخر باقی کمپنیوں کا احتساب کون کرے گا۔ ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کیس میں آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو شامل تفتیش کرنا چاہا تو دبائو آگیا کہ الیکشن تک نہ پوچھا جائے۔ تحریک انصاف کے علیم خان کی آف شور کمپنی ہے ان کے ہائوسنگ سکیموں کے ایشوز ہیں۔ احتساب کے قانون کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسے مزید موثر بنایا جائے۔ ایف آئی اے کا کردار بھی ماضی میں متنازعہ رہا ہے یہاں انکوائری شروع کی جاتی ہے اور پھر فائل الماری میں رکھ دی جاتی ہے ایف آئی اے اور نیب کیلئے انکوائری مکمل کرنے کی مدت مقرر کی جائے تاخیر کرنے والے افسر کو سزا دی جائے۔ اسی طرح عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے میکانزم پر نظرثانی کی جائے جہاں کئی کئی سال فیصلے نہیں کئے جاتے۔ کسی جج کے خلاف شکایت آئے تو اس کی ڈسپوزل کا وقت مقرر کیا جائے۔ ماتحت عدلیہ کے بارے میں بدعنوانی کی شکایات عام ہیں جہاں تاریخ دینے کیلئے بھی ریڈر رشوت لیتے ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں ججز کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ ان پر کیسز کا لوڈ کم ہو اور ان کی مانیٹرنگ سخت کی جائے۔ اگر دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلہ کیلئے وقت کا تعین ہو گیا تو کیسز کی تعداد بھی خود بخود کم ہو جائے گی۔ مختصر یہ کے نئی حکومت کو ہر شعبہ میں چیلنجز کا سامنا ہے عوام کی توقعات ان سے وابستہ ہیں اگر حکومت ڈیلیور نہیں کرے گی تو عوام میں مایوسی اور اضطراب پھیلے گا اصل بات یہ ہے کہ میرٹ پر کابینہ تشکیل دی جائے۔ اچھی حکمت عملی بنائی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ اچھے قوانین اور پالیسیوں کے ثمرات تبھی عوام تک پہنچتے ہیں جب ان پر عمل کیا جائے۔ ہر حکومت کے پہلے 100 دن اہم ہوتے ہیں۔ 100 دنوں میں عوام کو پتہ چل جائے گا کہ حکمران کس سمت جارہے ہیں۔ گورننس کیسی ہے۔ میرٹ پر کس قدر عمل ہو رہا ہے۔ نیک نیتی، ثابت قدمی، اخلاص اور ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ ہو تو سب کچھ ممکن ہے پھر اللہ تعالیٰ کی مدد اور عوام کا تعاون بھی نئی حکومت کے ساتھ ہوگا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین