• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عائشہ پروین

صبا آپی نہ جانے کب سے مجھے گھور رہیں تھیں،انھیں میں نظر انداز کر کے اپنی ہی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی ۔

’’میں بیس منٹ سے تمہیں پکار رہی ہوں کمال ہے اتنی بے خبری، ارے میری منگنی دو سال رہی تھی سلمان سے، ایک دن بھی ایسا حال نہ ہوا … کچھ ان کہی, ان سنی رہنے دو” آپی نے مجھے گھورتے ہوئے کہا‘‘۔

پھر امی نے کہا،’’بیٹی تم آئی ہوئی ہو، اسما کو سمجھاؤ چھ ماہ ہوگئے ہیں، حمزہ سے منگنی کو، یہ دن رات کا موبائل پر رابطہ اچھا نہیں, کچھ باتیں شادی کے بعد کے لیے بھی رہنے دے‘‘۔

’’اے کہاں ہو ؟‘‘

’’آپ کے پاس‘‘

’’آپ تو پاگل ہیں‘‘

’’تم نے ہی کیا ہے‘‘

ایک دوسرے کی باتوں میں دونوں کی زندگی حسین ہو گئ تھی ،صبح و شام ایک ایک بات ایک دوسرے کو بتاتے دونوں… یونہی رات بھیگتی رہتی ان دنوں کی آئندہ زندگی کے راز و نیاز میں۔

جس طرح سوشل میڈیا مطالعے کی خوبصورت عادت کو دیمک کی طرح چاٹ گیا ہے، وہ مطالعے کی آسودگی، یک سوئی نہیں رہی اسی طرح موبائل فون نے جذبے، محبت، کی باتیں ارزاں کر دی ہیں۔سب کچھ کہنے کی دھن میں لوگ سرپٹ بھاگ رہے ہیں وہ نازک کومل احساسات جو ابھی دل میں پوری طرح پنپنے بھی نہیںپاتے کہ انگلیوں کی پوروں کے ذریعے ان کا جبری اظہار ہو جاتا ہے، سوچنے سمجھنے کا کوئی اثاثہ ہی نہیں رکھ رہے ہم لوگ، ہر نئ چیز کو یوں ساتھ لپٹا لیتے ہیں کہ ماضی سے کٹ کے رہ جاتے ہیں، اپنے عالی شان مشرقی روایتوں کے ماضی سے۔

شادی کے دن قریب آ رہے تھے،حمزہ نے اسے کمرے کی سجاوٹ سے لے کر اپنے ڈریس تک کا بتا دیا تھا اور وہ بھی اپنی تیاری کا بتاتی رہی، مایوں اور مہندی کی رات بھی وہ اسے چھیڑتا رہا, اس کے فون، ایس ایم ایس اسے مدہوش کرتے رہے، اسے اپنا حجلۂ عروسی بھی مانوس سا لگا حمزہ نے ہر تیاری جو شیئر کی تھی۔اب وہ اتنی نارمل تھی کہ کوئی احساسات بھی نہ رہے تھے، حمزہ کے آنے کی بھی اتنی چاہ نہ ہو رہی تھی وہ دیر تک خود کو ٹٹولتی رہی، مگر جان نہ سکی کہ وجہ کیا ہے۔

حمزہ جب آیا تو وہ بھی اتنی شدت سے اس کی طرف نہ بڑھا ،جس کی ایک دلھا سے توقع ہوتی ہے، نہ ہی اس نے اس کی خوب صورتی کی تعریف کی جیسے وہ اس کی تصویریں بھیجنے پر کرتا رہا تھا . ایک خواب تھا جو لمحوں میں ٹوٹ چکا تھا۔جذبے جیسے کاغذی پھول تھے، جن میں مہک نہ تھی۔ 

تازہ ترین