آخر کار انتخابات کا دن گزر گیا۔ کوئٹہ میں خود کش بم دھماکے اور ایک حادثے میں متعدد افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان میں اپنے فرائض کی بجا آوری میں مصروف پاک فوج کے اہلکار بھی تھے۔ اللہ ان سب کی مغفرت کرے اورانکے لواحقین کو صبر سے نوازے (آمین)۔ ان دو المناک واقعات کے سوا انتخابی عمل عمومی طور پر پر سکون رہا۔ فوج کی نگرانی موثر ثابت ہوئی۔ کسی جگہ سے زور زبردستی اور بڑے پیمانے کی دھاندلی کی شکایت نہیں ملی۔ اگرچہ ماحول میں سخت تنائو تھا لیکن معمول کے چھوٹے موٹے واقعات سے ہٹ کر لڑائی جھگڑے یا دنگا فساد کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ اسکے لئے الیکشن کمیشن، فوج ، پولیس اور تمام متعلقہ اداروں کی تحسین کیساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی ضرور داد دینی چاہئے کہ انہوں نے جذبات اور اشتعال پر قابو رکھتے ہوئے اس جمہوری مشق میں حصہ لیا۔
لیکن الیکشن کا پر سکون انعقاد ایک انتظامی مسئلہ ہے۔ الیکشن کی ساکھ کا تعلق اسکے نتائج پر اعتبار سے ہے کیونکہ انتخابی عمل کا سب سے نازک، سب سے حساس اور سب سے اہم مرحلہ شفاف طریقے سے ووٹوں کی گنتی اور اعداد و شمار کے مرتب ہونے سے ہے۔ اگر یہ مرحلہ شفافیت سے محروم ہو جائے یا ووٹوں کی گنتی کے عمل پر پر اسراریت کا کوئی پردہ پڑ جائے تو الیکشن کا شفاف انعقاد بھی بے معنی ہو کے رہ جاتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ کسی امیدوار کو پڑنے والا ووٹ اسکے حق میں گنا جائے، کسی دوسرے امیدوار کو پڑنے والے ووٹوں میں کوئی اضافہ نہ کیا جائے اور یہ سارا عمل آئین و قانون میں طے کئےگئے طریقہ کار کے مطابق ہو۔
بد قسمتی سے انتخابی عمل کے اس حساس اور اہم ترین مرحلے کے بارے میں اتنے سنجیدہ سوالات اٹھے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتیں بلبلا اٹھی ہیں۔ الزام یہ ہے کہ الیکشن رولز کےمطابق، فارم 45 امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو جاری نہیں کئےگئے۔ پورے پاکستان کے متعدد حلقوں میں گنتی کا عمل شروع ہوتے ہی بند کر دیا گیا ۔ سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کوزبردستی پولنگ اسٹیشنزسے باہر نکال دیا گیا۔ متعلقہ عملے نے حکم جاری کیا کہ یہاں (پولنگ اسٹیشن) پر نہیں، انتخابی نتائج ریٹرننگ آفیسر کے ہاں مرتب ہونگے۔ وہ اپنا سازو سامان لپیٹ کر روانہ ہو گئے۔ اسکے بعد کی کہانی کم از کم شفافیت سے محروم ہے۔ کیا حقیقت وہی ہے جو الزامات لگانے والے بتا رہے ہیں یا الیکشن کمیشن کا جواز درست ہے، اسکا تعین کرنا کم از کم فی الحال ممکن نہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وسط 2007 میں اس وقت کےآمر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان NRO طے پا رہا تھا۔ الیکشن قریب تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے تجربات کی بنا پر اس امر کی یقین دہانی چاہی کہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کو ہر اعتبار سے غیر متنا زع اور شفاف بنایا جائے ۔ محترمہ کے اصرار پر اتفاق ہوا کہ پولنگ کے بعد تمام باکسز، امیدواروں کے نمائندوں یعنی پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں کھولے جائیں گے۔ایک ایک ووٹ کی گنتی انکے سامنے ہو گی۔ اسکا اندراج ایک فارم پر کیا جائے گا۔ جس پر پولنگ اسٹاف کے علاوہ پولنگ ایجنٹس کے دستخط بھی ہوں گے۔ یہ نظام 2008 سے نافذ ہو گیا ۔ تب اس فارم کا نمبر 14 تھا۔ اب یہ فارم نمبر45 کہلاتا ہے۔ اسے ووٹوں کی گنتی کا سب سے اہم ، بنیادی اور مستند گوشوارہ سمجھا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے قواعد میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ الیکشن کا وقت ختم ہونے اور گنتی مکمل کر لینے کے فوراََ بعد فارم 45 بھرا جائے گا۔ اس پر امیدوار کو ملنے والے، مسترد ہونے والے اور چیلنج کئے جانے والے ووٹوں کا اندراج ہو گا۔ یہ بھی کہ مرد اور خواتین کے کتنے ووٹ پڑے۔ اس پر پولنگ اسٹیشن کا ا فسر اعلیٰ یعنی پریذائیڈنگ افسر اپنا انگوٹھا لگائے گا اور اپنے دستخط ثبت کرے گا۔ سب سے سینئر اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر اس بات کا باضابطہ اندراج اس فارم پر کرے گا۔ اس بار الیکشن کمیشن نے ایک نیا سسٹم" ریزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم" (RTS) بھی وضع کیا۔ ہر پریذائیڈنگ افسر پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ فارم 45 مکمل طور پر بھر لینے اور تمام متعلقہ افراد کے دستخط لینے کے فوراََ بعد اس فارم کی تصویر یعنی اسکرین شاٹ لے گا اور یہ تصویر متعلقہ ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن کمیشن کو وٹس ایپ کر دے گا۔ یہ سارا قانونی عمل ہو جانے کے بعد ہی پریذائیڈنگ افسر اور سارا پولنگ اسٹاف، پولنگ اسٹیشن چھوڑ ے گا۔
یہ ہے اس اہم ترین انتخابی مرحلے کی تفصیل جس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پولنگ اسٹاف کا امیدواروں کے ایجنٹوں کے سامنے گنتی کا مکمل نہ کرنا اور قواعد کے مطابق فارم 45 مہیا نہ کرنا سنگین بے ضابطگی ہے۔ پولنگ ایجنٹس کی عدم موجودگی میں فارم 45 میں کئے گئے اندراجات سو فیصد درست بھی ہوں تو بھی قابل اعتبار نہیں کہلائے جا سکتے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جب ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو پری پول رگنگ کی شکایات ہیں اور بظاہر وہی سب سے زیادہ خسارے میں بھی نظر آرہی ہے۔ابھی انتخابی عمل کو مکمل ہوئے چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ فارم 45 کے حوالے سے شکایات کے انبار لگ گئے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، ایم ایم اے، پی۔ایس۔ پی، تحریک لبیک، اور بلوچستان کی جماعتوں نے بیک آوازاحتجاج کیا اور شفاف گنتی نہ ہونے کو دھاندلی قرار دیا۔
آج جبکہ یہ کالم لکھا جا رہا ہے۔مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف اور متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن نے اسلام آبادمیں آل پارٹیز کانفرنس بلارکھی ہے۔ کالم کی اشاعت تک واضح ہو چکا ہو گا کہ ان پارٹیوں کا با ضابطہ ردعمل کیا ہے؟ وہ کیا حکمت عملی اپنانے جا رہی ہیں؟ کیا وہ کسی ایک نام تلے جمع ہو کر مشترکہ تحریک چلانے جا رہی ہیں؟ کیا وہ کسی ایسے بے لاگ کمیشن کے قیام کا مطالبہ کریں گی جو قلیل عرصے میں فارم 45 کے حوالے سے وسیع پیمانے پر ہونے والی شکایات کا جائزہ لے؟
قومی مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ معاملات کو آئین و قانون کی حدود میں رکھتے ہوئے جدوجہد کی جائے۔ وہ راستہ نہ اپنایا جائے جو عمران خان نے اپنایا تھا۔ ان کے پاس تو ابتدامیںفقط چار حلقوں کی شکایات تھیں( جن میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہ ہوئی)۔ یہاں تو فارم 45 بر وقت مہیا نہ کرنے کے عمل نے پورے انتخابی عمل کی شفافیت کو داغ دار کر دیا ہے اور انتخابی نتائج کی قانونی حیثیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
عمران خان کو خود انکے متعارف کردہ طریقہ کار کے مطابق جواب دیا جا سکتا ہے اور یہ اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے۔ لیکن وہ اس طریقہ کار سے ہٹ کر خود خان صاحب کو بھی بتا (بلکہ سکھا)سکتی ہیں کہ جمہوری عمل کی نزاکتیں کیا ہوتی ہیں اور اگر کوئی شکایت ہو بھی تو اس سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کیساتھ ساتھ یہ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کو متنا عہ ہونے سے بچائیں۔ سب سے زیادہ یہ عمران خان پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے اتنے بھاری بوجھ سے آزاد ہو جائیں۔ اگر اپوزیشن نے متحد ہو کر وہی راستہ اپنا لیا جس پر خان صاحب چلتے رہے تو انکے لئے بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)