پروفیسر شاداب احمد صدیقی
الیکشن 2018 میں عوام بالخصوص نوجوانوںکا جوش و ولولہ قابل دید تھا۔ حالیہ الیکشن کے بعد نوجوانوں کو سیاست دانوں سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ،کیوں کہ الیکشن مہم کے دوران کے مسائل کے حل کےلیےبےشماروعدےکیے۔ ہمارے نوجوانوں نے سیاست دانوں سے بہت سی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں، کیوں کہ انتخابی جلسوں اور منشور میںنسل نو کو بے شمار سبز باغ دکھائے گئے ہیں۔ حالیہ انتخابات سے یہ بات تو سامنے آگئی کہ نسل نو کے بغیر سیاسی جدوجہد نامکمل ہے،نوجوانوں میں سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے۔ نسل نو کی سیاست سے دل چسپی ملکی مفاد میں ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں وعدے وعید کی سیاست کی جاتی رہی ہےمگرسیاسی جماعتوں کو یہ بات ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اب حالات بدل چکے ہیں، نوجوانوں میں شعور و آگاہی بیدار ہوچکی ہے، اگر اب وہ اپنےوعدوں سے منحرف ہوئے ،تو یہ فولادی قوت کے حامل نوجوان بپھر جائیں گے، کیوں کہ ان کی سوچ میں احتسابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ اگر اب نوجوانوں کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلا گیا تو ان کے ہاتھ سیاست دانوں کے گریبانوں تک بھی پہنچ جائیں گے، اس کا عملی نمونہ ہم نے 2018کی الیکشن مہم میں دیکھا، جب سابقہ ایم این اے، ایم پی اے اپنے حلقوں میں گئے تو نوجوانوں نے ان کی کار کر دگی پر سوال اٹھائے، ان کا احتساب کیا، یہ انتہائی خوش آئند عمل ہے موجودہ الیکشن کے بعد بھی سیاستدانوں کو کام نہ کرنے کی صورت میں نوجوانوں کے سوالات اور احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ عوام سوال اٹھائیں، وہ حکمرانوں سے پوچھ سکیں کہ آپ کا جو منشور ہے، کیا آپ اس پر عمل درآمد کررہے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اگر آپ ان سے نہیں پوچھیں گے،ووٹ ڈال کر پانچ برسوں کے لیے سو جائیں گے، ’’چیک اینڈ بیلنس ‘‘ نہیں رکھیں گے تواس میں نقصان آپ کا ہی ہے،پانچ سال تک اپنےمسائل کا رونا روتے رہیں گے، اب صرف سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ مقتدر حلقوں کی کار کردگی پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔آپ نے یقیناً اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دیا ہوگا، اب آپ کے مستقبل کا تعین اسی پر ہوگا، اس مرتبہ سوشل میڈیا نے ووٹ ڈالنے اور سیاسی شعور اجاگر کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر گہری نگاہ تھی اور انتخابی مہم کے دوران نوجوانوںنے سیاستدانوں کی خوبیوں اور خامیوں پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سیاستدانوں کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔یا درکھیںووٹ دے کرآپ نے صرف ایک ذمے داری پوری کی ہے، منتخب نمائندوں کی کار کردگی پر نظر رکھنا بھی آپ ہی کی ذمے داری اور یہ ووٹ ڈالنے سے زیادہ اہم اور بڑی ذمے داری ہے ۔ اگر آپ اپنے منتخب نمائندوں کوان کے انتخابی منشور سے منحرف ہوتا ہوا دیکھیں، تو اس کے خلاف آواز ضرور اٹھائیں،احتساب کا عمل ہمیشہ جاری رہنا چاہیے،نمائندوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں آرام کرنے کے لیے نہیں بلکہ نوجوانانِ پاکستان نے مسائل حل کرنے اور ملک کی تعمیر کے لیے کام کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اگر آپ کا منتخب نمائندہ آپ کے علاقےکے مسائل سے چشم پوشی اختیار کرے، تو آپ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتے ہیں۔ نوجوان دوستو! الیکشن کےبعد کی سیاسی صورت حال پر آپ کی گہری نظرہونی ضروری ہے۔ دوسری جانب منتخب نمائندوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ نسل نو نے انہیں ووٹ کی صورت میں اپنا بھروسہ دیا ہے، کیوں کہ وہ اپنے مسائل کو ترجیحی بنیا دپر حل کرانا چاہتے ہیں، اب باری آپ کی ہے۔موجودہ الیکشن سابقہ الیکشن سے اس حوالے سے بھی مختلف رہا ، کیوں کہ اس بار کئی نوجوانوں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا،و ہی اس الیکشن کا مرکزی کردار رہے۔ہمارے نوجوانوںکو سب سے بڑا جو درپیش مسئلہ ہے وہ بیروزگاری ہے، میرٹ کا فقدان ہے، گوناگوں تعلیمی مسائل، کھیلوں کے میدانوںکی کمی، معاشی مسائل ، جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔نوجوانوں کی ضروریات اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی ہماری ریاستی ناکامیوں کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ نسل نونے اپنے سنہرے مستقبل کی آس اور امیدووٹ ڈالا ہے، وہ نوید سحر کے خواہاں ہیں۔ الیکشن 2018 کے نتائج ضرور ہمارے نوجوانوں کے لیے مثبت تبدیلیاںلائیں گے ۔اگرکرپشن سے نجات چاہتے ہیں، تو اپنے منتخب نمائندوں کی کار کر دگی پر نظر رکھیں، خود بھی بد عنوانی سے دور رہیں ،فرسودہ نظام کا خاتمہ ملک و قوم کی تعمیر کے لیے بہت ضروری ہے۔ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ایک پلیٹ فارم پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ آپ کا اتحاد سیاستدانوں کے لیےاحتساب کے عمل میں اہم کردار ادا کرے گا۔ آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کے حامی ہوںآپ سب کی منزل اور راہیں ایک ہی ہیں، مستقبل کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں۔ آپ کے نزدیک ذاتی مفاد سے زیادہ ملکی سالمیت اور انسانیت کی خیرخواہی مقدم ہونی چاہیے۔آپ نے ووٹ ڈال کرجمہوری حق ادا کردیاہے،چند دنوں بعد منتخب نمائندے اسمبلیوں میں بھی بیٹھ جائیںگے ، یاد رکھیے ضروری نہیں کہ حکومت میں بیٹھنے والے نمائندے ہی آپ کے مسائل حل کر سکیں گے، بلکہ حزب اختلاف میں بیٹھنے والے بھی آپ کے مسائل کی نشان دہی کرکے انہیں حل کروا سکتے ہیں،شرط صرف یہ ہے کہ وہ کتنی سنجیدگی سے آپ کے مسائل حل کرتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اب الیکشن کے بعد اپنے حلقے کے منتخب نمائندوں پر گہری نظر رکھیں اور کچھ مہلت کےبعد بغور جائزہ لیںکہ آپ کے منتخب نمائندہ کا طرز عمل اور رویہ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟ چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ اب پانچ سال تک آپ منتخب نمائندوں پر مرکوز رکھیں۔ آپ منتخب نمائندوںسے رابطے میں رہیں اور اپنے مسائل سے روشناس کرائیں۔ کام کرنے والے نمائندوں کی بھرپور پزیرائی کریں اواور غفلت برتنے والے نمائندوںکا احتساب کریں۔ الیکشن کے بعد کی صورتحال کافی اہم ہے۔اس مرتبہ تو سیاستدانوں کے منشور کافی اہم ہیں۔سب نے اپنے سیاسی منشور کو جواز بناکر الیکشن لڑا ہے، عوام نے دل کھول کر سیاستدانوںکے سیاسی منشور کی پذیرائی کی ہے۔ اگر پھر بھی یہ روایتی سیاست رہی اور منشور کو بالائے طاق رکھ کر قوم کو فراموش کردیا گیا تو اس مرتبہ یہ نوجوان اور عوام کڑا احتساب کریں گے۔اب سوشل میڈیا کا دور ہے، نوجوانوں کی بھرپور طاقت سوشل میڈیا ہے، غفلت اور کوتاہی برتنے والے سیاستدانوں کے خلاف آوازاُٹھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ الیکشن 2018 نئی امنگوں اور ولولے سے بھر پور ثابت ہوا۔آپ کے روشن کیے گئے دیے ہمارے معاشرے کو منور کریں گے،آپ اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں، تعلیم کے ساتھ سیاسی معاشرتی فلاحی سرگرمیوں میں بھی بھرپور دل چسپی لیں۔قوموں کی ترقی کا راز تعلیم ہی ہے، کسی بھی ملک و ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے اور اس کا بہتر اور مناسب انتظام کرے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی حکومت اس قوم بالخصوص نسل نو سے کیے گئے کتنے وعدے پورے کرتی ہےتعلیم ،صحت اور روزگار کے مسائل حل کر پاتی ہے؟ پڑھے لکھے نوجوان ہی ملک کی تقدیر بدلیںگے۔اب نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے، سیاست دان بھی نوجوانوں کی سیاسی سوچ بصیرت شعور و آگاہی سے خوفزدہ ہیں۔ امید ہےکہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کوئی غلط قدم نہیں اُٹھائیں گے اور نہ ہی ایسا کوئی کام کریں گے، جو اس ملک کے مفاد میں نہ ہویا جس سے اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل ہو۔نئی حکومت قائم ہوگی، نئی اسمبلیاں بنیں گی، نوجوانو! تم اپنے منتخب نمائندوں پر اندھا اعتماد کرنے کی وہ غلطیاں مت دُہرانا ، جو تمہارے بڑوں نے کی تھی، اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا۔