• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018کے انتخابات کے بعدشکست خوردہ جماعتوں کا رونا دھونا یوں عجیب بلکہ احمقانہ لگتا ہے کہ یہ وہ انتخابات تھے جن کے نتائج ان انتخابات کا اعلان ہوتے ہی واضح ہوگئے تھے۔پھر میاں نوازشریف کی نااہلی،قید نے بات کو اور واضح کردیا،اسی طرح مسلم لیگ کے اہم لوگ جو سیٹ جیتتے کے حوالے سے مشہور ہیں، اُن کی تیزی سے تحریک انصاف میں شمولیت سے مطلع مزید صاف ہوگیا ، اس حوالے سے ہم نے انتخابات سے دو دن پہلے 22جولائی کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں لکھا ’’یوں یہ نرالےانتخابات ہیں کہ ان کا نتیجہ قبل از انتخابات آشکارہ ہوچکا، صاف یہ کہا جارہا ہے کہ آنے والی حکومت تحریک انصاف کی ہوگی‘‘ یکسو تحریک انصاف ، سخت جاں ن لیگ ‘کے عنوان سے 24جون کو شائع ہونےوالے اپنے کالم میں ہم نے لکھا’’بعض مخصوص حالات کی وجہ سے تحریک انصاف کی کامیابی کا ڈھنڈورا ابھی سے پیٹا جارہاہے‘‘الغرض اخبارات کے صفحات سے لےکر گلی ،محلوں اور کھیت ، کھلیانوں میں جو بات عام تھی وہ یہی تھی کہ انتخابی نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔پھر سوال یہ ہے کہ جب ہر خاص و عام ایک نتیجے پر پہنچا ہوا تھا تو ایک سیاستدان کیسے بے خبر رہ سکتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ دراصل ایک آسرا ہی ان کے پیش نظر تھا جس کی وجہ سے وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی نادیدہ بلکہ سارے ڈرامے میں معاو ن کردار ادا کررہے تھے۔یعنی ایسی جماعتوں کو کچھ حصہ دینے کے لالچ پر خاموش بلکہ ساتھ ساتھ چلنے کیلئے تیار کیا گیا تھا،یہی وجہ تھی کہ مخلوط حکومت کا تاثر بھی دیا جارہا تھا۔ حیران کن طور پر صرف ایک جماعت یعنی تحریک انصاف کی کھلم کھلا مہم جاری تھی اور دیگر جماعتوں کو مہم میں خوف و دھمکیوں کا سامنا تھا ، اس طرح ووٹرز تو کیا اُن کے قریبی کارکن بھی کھل کر کام نہیں کرسکتے تھے، لیکن کسی جماعت نے پری پول دھاندلی کے اس برسرِعام منظر کو عوامی بنانے کی کوشش نہ کی، وجہ وہی آسرا تھا کہ کہیں یقین دلائے گئے حصے سے محروم نہ کردیئے جائیں۔یوں تو پیپلز پارٹی کے ماسوا اس کا نقصان تمام شکست خوردہ جماعتوں کو ہوا لیکن ان میں اکثر جماعتیں سابقہ اقتدار میں شریک رہی تھیں، لیکن عوامی نیشنل پارٹی کوبہت گہرے زخم لگے۔اے این پی سے اس انتخابی مہم میں پہاڑ جیسی غلطیاں ہوئیں،یا کرائی گئیں۔اس طرح پہلی مرتبہ اے این پی کو نظریاتی زک و شک کا سامنا بھی رہا۔2018میں ان کی شکست پر کارکن پارٹی کےاور قریب ہوگئے تھے کیونکہ اُن انتخابات میں نظریات کو بچانے کیلئے شکست کو گلے لگایا گیاتھا۔اس مرتبہ شکست سے بچنے کیلئے نظریات کو دائو پر لگایا گیا ۔مجھے قطعی اس وقت اچھا نہیں لگ رہا کہ میں سوز کے ساز چھیڑوں۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمانِ عظیم ہے کہ تمہارا دوست وہ ہے، جوتمہیں تمہارے عیوب سے باخبر کرے۔میں گزشتہ ایک سال سے اے این پی کو اسی وجہ سے ہد ف تنقید بنارہا تھا،تاکہ وہ اپنی غلطیوں پر توجہ دے،لیکن پشتو میں کہتے ہیں کہ ،غریب آدمی کی کون سنتا ہے۔
سب سےبڑا کام جو اے این پی سے نہ ہوسکا وہ یہ ہے کہ اے این پی نے شہادتوں کی ایک تاریخ تورقم کی لیکن قوم کو یہ شعور نہیں دلاسکی کہ یہ قربانی کس کی خاطر دی گئی۔یعنی کیا مقامِ ماتم نہیں ہے کہ ہارون بلور کی قبر کی مٹی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی اور حاجی غلام احمد بلور 45ہزار کے بڑے مارجن سے ہار گئے، کیا یہ ووٹ اُن پختونوں نے نہیں ڈالے جن کی خاطر یہ خون گرا تھا؟اے این پی کی تنظیم صوبے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔میں نےیکم جولائی2018کو اپنے کالم ’پیپلزپارٹی کا علاقائی جماعت بننے کا المیہ‘ میںلکھا ’’۔ اے این پی اب صرف ایک صوبے بلوچستان میں رہ گئی ہے۔پختونخوا میں مردان اور چارسدہ کے علاوہ اس کا وہ اثر جو دیگر علاقوں میں تھا ، اب نہیں ہے‘‘اس سے قبل 24جون کو کالم میں لکھا’’سچ تو یہ ہے کہ پورے ملک میں اے این پی اگر تنظیمی اور عوامی سطح پر کہیں نظر آتی ہے تو وہ بلوچستان ہے‘‘آپ نے دیکھا کہ یہ بلوچستان ہی ہے جس نے کم از کم اے این پی کیلئے مٹی کی ناک تو بنادی ہے ۔غور فرمائیے اس جماعت کی پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں فعال تنظیم ہی نہیں ہے، ہزارہ کا تو تذکرہ ہی کیا کریں ، دیگر اضلاع میں بھی صورتحال دگرگوں ہے، تو کیا ایسی جماعت ملک گیر تو کیا صوبائی جماعت ہونے کا بھی دعویٰ کرسکتی ہے؟ شکست کی ایک اہم وجہ فاٹا پختونخواانضمام کی جدوجہد میں اے این پی کا کافی دیر سے شامل ہونا ہے ۔اس حوالے سے ہم نے اپنے کالم میں  لکھا’’آپ کو یاد ہوگا کہ جب فاٹا کے اراکین اسمبلی انضمام کے حق میں بات کررہے تھے،توبڑے پختون رہنما سی پیک سی پیک کھیل رہے تھے۔ 11اکتوبر 2015کو راقم کا کالم ’قبائلی علاقوں کاصوبہ پختونخوا میں انضمام، روزنامہ جنگ میں شائع ہوا، تو بڑےبڑے اصحاب نے انضمام کو مذاق جانا۔راقم نے متعدد کالم لکھے،4ستمبر اور11نومبر 2016کے کالموں میں، ناچیز نے ان پختون قوم پرستوں پر تنقید کی،جو ابھی تک سی پیک میں کوئی پیکٹ ڈھونڈ رہے تھے‘‘یعنی میرے کالم 11اکتوبر 2015سے پہلے ماسوائے لطیف لالہ کے، اے این پی کے کسی رہنماکا بیان کوئی بتائے، جو فاٹا کے سلسلے میں ہو، اے این پی نے نہ جانے کیوں سی پیک کے ایشو کی وجہ سے خود کواتنے بڑےایشو سے دور رکھا۔ پھر آپ نے قبائل میںاے این پی کی حالیہ کارکردگی بھی دیکھ لی۔کراچی میں یکطرفہ ایم کیو ایم کے گیت گانا انتہائی بے سُرہ تماشا تھا۔ لوگ نااہل امیدواروں کو ٹکٹ دینا بھی شکست کی وجہ بتاتے ہیں، لیکن میںاس کا زیادہ علم نہیں رکھتا۔ ملک میں اس وقت63فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے اور سرکاری اعداد وشمار کےمطابق ان میں زیادہ پختون ہیں۔اے این پی بالخصوص ایمل ولی کے بعض غیرضروری بیانات سے نوجوانوں کی تنظیم کو ناراض کیا گیا ، جس کا زبردست نقصان ہوا۔ آپ دیکھیں، حاجی بلور 45ہزار اور اسفند یار ولی22ہزار کے بڑے مارجن سے ہار جاتے ہیںاور ایم ایم اے کو مسترد کرتے ہوئے نوجوان ووٹرزعلی وزیرکو این اے50اورمحسن داوڑکواین اے48سےکامیاب بناتے ہیں۔اسفندریار ولی صاحب کی بیماری بھی ایک عنصر ہے لیکن اُنہوں نے صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے مہم چلائی۔سب سے بڑا نقصان جو انتخابی شکست سے بھی بڑا ہے، وہ نظریاتی ہے۔تاریخ میں پہلی مرتبہ اسفندیارولی خان اور اس طرح ایک دو کلاس کے رہنمائوں کو چھوڑ کر سب کے سب یہاں تک کہ ٹی وی و سوشل میڈیا کی اسکرینوں کو بلا ضرورت رونق بخشنے والے صاحب بھی، یہ تاثر عام کرتے رہے کہ بس اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں کچھ ہڈیاں اے این پی کو ڈالنے ہی والی ہے۔اور اس کے بعد پھر اے این پی کے رہنما جس قدر خشوع وخضوع سے سجدہ ریز ہوسکتے تھے،وہ ہوئے...میری کم علم کی رائے میں اِن عبرت آموز نتائج سےاے این پی کی اگر خوش فہمی دور ہوگئی ہو ، تو یہ دراصل بڑی نظریاتی کامیابی ہے۔ سلیم کوثر نے کہا تھا۔
یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچا خواب نہیں ہوتا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین