تحریک انصاف کو حالیہ انتخابات میں کامیابی ملی ہے ، اسے مبارک ہو۔ باوجود اس کے، کہ اس کامیابی کے طریقہ کار پر بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں اور کوئی الیکشن کمیشن کو توکوئی کسی اور کو اس کاذمہ دار قرار دے رہاہے۔ لیکن جیسا کہ ملک کی دوبڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ پارلیمنٹ میں جانا چاہئے اوروہاں اپناجمہوری کردار ادا کرنا چاہئے اس لئے باقیوں کے پاس بھی کوئی آپشن نہیں بچاہےاور ایسا لگتا ہے کہ چند ہی دنوں میں ساری دھول بیٹھ جائے گی اورسب پرانی تنخواہ پرنیا کام شروع کریں گے۔اس سارے کھیل میں کس کے ہاتھ کیاآیا ؟اورکون خالی ہاتھ رہا ؟یہ تووقت کے ساتھ فیصلے ہوتے رہیں گے لیکن دھرنوں اورمزاحمت سے شہرت پانے والے ملک کے آئندہ وزیراعظم عمران خان شاید سب سے مشکل صورتحال سے دوچارہیں۔ انہیں نہ صرف اسی نظام میں اپنے وعدے پورے کرنے ہیں بلکہ بطورپارٹی یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ان کی جماعت اخلاقی لحاظ سے بھی دوسری جماعتوں سے بہترہے۔ اس حوالے سے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ مادی لحاظ سے تو شاید کسی کی مدد اورمشورے لے کر کامیاب ہوجائیں لیکن ایک میدان ایسا ہے جس میں انہیں سب کچھ خود ہی کرنا پڑے گا۔ اور وہ ہے اخلاقی برتری کا میدان۔کسی کو یاد نہ ہو۔ ہم یاد دلادیتے ہیں کہ ا س سے پہلے جب سال 2013 کے عام انتخابات ہوئے تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد صوبے میں مختلف واقعات میں تحریک انصاف کے تین ایم پی ایز کومارا گیا جن میں سے کس کس کے قتل کا مقدمہ اپنی پارٹی ہی کے ایم پی ایز کے خلاف بنا؟خودکش دھماکوں میں مرنے والوں کا الزام بھی اپنے ہی ایم پی ایز کے خلاف لگا اوریہاں تک کہا گیا کہ جس دہشت گردی کو ختم کرنے یہ جماعت میدان میں آئی تھی اس کے اپنے لوگوں نے اپنے لئے میدان خالی کرنے کے واسطے یہی طریقے استعمال کئے، پارٹی کے اقلیتی رکن اوروزیراعلی کے مشیر کو مارا گیا تواس کا الزام پارٹی ہی کے دوسرے امیدوار پرلگا اوروہ کافی عرصے تک گرفتاربھی رہے۔ اسی دوران صوبے میں خراب کارکردگی یا کرپشن کے الزام میں اپنے کچھ وزیروں کو فارغ کرکے ان کی جگہ نئے وزیروں کو کابینہ میں شامل کیاگیا ، نکالے جانے والوں نے نئے شامل کئے جانے والوں اورنئے شامل ہونے والوں نے نکالے جانے والوں کو جس جس طریقے سے الزامات کی زد میں رکھا سب کو یاد ہے۔پھراسی دوران سینیٹ کے انتخابات ہوئے اس میں پارٹی کے اپنے ہی لوگوں نے اپنے ہی ساتھیوں کے بارے میں میڈیا کو خبریں دیں تاکہ جب یہ خبریں چلیں تو ان کے یہ ساتھی بدنام ہوجائیں۔ بدنامیوں کی یہ کوششیں صرف اس وجہ سے ہوتی رہیں کہ ہرکوئی پارٹی میں اپنے مستقبل کو محفوظ بناسکے اورکچھ لوگوں کو جب نکال لیا جائے تو یہ خبریں دینے والے ہی پارٹی کا آخری آسرارہیں۔ اوراب رہی سہی کسر،، رواں سال کے انتخابات کے اختتام پرپارٹی کو حاصل ہونے والی پوزیشن تھی جب پارٹی نے مرکز اورخیبرپختونخوا میں اکثریت اورپنجاب میں مسلم لیگ ن کے برابرنشستیں حاصل کیں پھر توپارٹی کے اندر سے ہی الزامات کے وہ سلسلے شروع ہوئے کہ الامان الحفیظ۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ اس سے پہلے کسی جماعت کے منتخب اراکین نے اپنے یا اپنے امیدوار کے لئے بڑی وزارتوں کے حصول کے لئے الزامات کا راستہ اختیار کیا ہو۔ میری یادداشت تو کمزورہے ایسا کم ہی ہوا ہے لیکن اگرکسی کو یاد ہو۔ تو بھی اسے یہ یاد ہونا چاہئے کہ وہ جماعتیں تو پہلے سے ہی اس لئے تحریک انصاف کی زد پر تھیں کہ ان کی اخلاقی پوزیشن کمزور تھی لیکن کیا یہ کام تحریک انصاف کو زیب دیتا تھاکہ اس کے خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کے امیدواراپنی ہی جماعت کے ایسے لوگوں کے خلاف میڈیا کو خبریں دیں جو وزارت اعلی کے مضبوط امیدوار ہیں ۔تحریک انصاف نے ہمیشہ اے این پی کو اخلاقی گراونڈز پرتنقید کا نشانہ بنایا لیکن ہمیں یاد ہے کہ جب سال 2008 کے انتخابات کے بعد بشیربلور مرحوم جیسے تجربہ کارشخص کو چھوڑ کراے این پی کی قیادت نے نوجوان امیرحیدرخان ہوتی کو وزیراعلی نامزد کیا تواس پرمیڈیا کے ساتھ ساتھ دیگر پارٹیوں کی جانب سے بھی سخت تنقید کی گئی لیکن جب ہم نے اس حوالے سے بشیربلورمرحوم سے اس بارے میں ان کی رائے مانگی تو انہوں نے اورانکے بڑے بھائی غلام احمد بلور نے بیک زبان یہ جواب دیا کہ جب پارٹی نے امیرحیدرخان ہوتی کے بارے میں فیصلہ دے ہی دیا ہےتو پھر کسی کے پاس کچھ کہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔اس لئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف جب حکومت سازی کے ان اقدامات سے فارغ ہوتو وہ کارکنوں کو یہ بھی تربیت دے کہ وہ جب کبھی عروج پرپہنچیں توکیسا رویہ اختیار کریں اورجب انہیں رنج پہنچے تو کیاطرزعمل اختیار کریں ورنہ مادی لحاظ سے تو پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہوگی لیکن وہ اخلاقیات کے میدان میں ہمیشہ کمزورمقام پرکھڑی ہوگی۔ جس کا اسے سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)