• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی حکمرانی کی چادر پر چہرہ تو نیا ہے اور نئی توقعات بیدار کررہا ہے لیکن جس عمارت پر یہ پردہ ڈالا گیا ہے وہ تو پرانی ہی ہے۔ اسے گرانا تو آسان نہیں ہے۔ اور یہ سوال بھی سر اٹھاتا ہے کہ کہیں اس عمارت کی شکستگی کو چھپانے کے لئے تو اس پر یہ غلاف نہیں چڑھایا جارہا۔ پھر یہ بھی کہ اس غلاف کے چاک سے پرانی عمارت کے وہ ستون جھانک رہے ہیں جو بہت مضبوط ہیں اور غلافی ہتھوڑوں سے انہیں منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ بہر کیف ، جسے وہ تبدیلی کہتے ہیں اس کی آمد آمد ہے۔ انتظار ہےکہ نئی حکومت بنے گی۔ وعدے وفا ہوں گے۔ بنے گا نیا پاکستان ۔ لیکن وہ پاکستان نیا کیسے ہوگا کہ جب اس کی تعمیر میں پرانے پاکستان کی کسی گرتی ہوئی دیوار کی کئی اینٹیں بھی استعمال کی جارہی ہیں۔ وہ دکھائی دے رہا ہے آپ کو کہ جہاں تحریک انصاف کی نئی، اجلی اینٹوں میں متحدہ قومی موومنٹ کی بدرنگی اینٹ کا پیوند لگا ہے۔ اور کتنی ہی اینٹیں تو ایسی ہیں کہ جنہیں آپ آزاد کہیں۔ جہاں جگہ خالی ہو انہیں ٹھونس دیا جائے۔
اس تعمیر اور دیوار کے استعارے سے آگے بڑھ کر ہم دیکھیں تو وہ دروازہ تو ابھی تک نہیں کھلا کہ جس میں داخل ہو کر ہم نئے پاکستان میں داخل ہوسکیں یا سادہ لفظوں میں ایک نئی حکومت کی عملداری کا آغاز ہو۔ انتخابات کے دن کوگزرے تو اب دس دن ہورہے ہیں اور ابھی تک اسکور بورڈ کے سارے خانے بھرے نہیں گئے۔ جس طرح 25جولائی سے پہلے کے ہفتوں اور مہینوں کی کارگزاریوں نے ایک اودھم مچا رکھا تھا اسی طرح انتخابات کے دن کے بعد ایک ایک دن نے اس تذبذب اور بے یقینی کا سامان فراہم کیا ہے کہ جس کی کوئی گنجائش ہونا نہیں چاہئے۔ یہ تو بس دو تین کا کام ہےکہ سارے نتائج سامنے آجائیں اور نئی بننے والی حکومت کے خدوخال سب کو دکھائی دینے لگیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف نے تو ہمیشہ تیز رفتاری کا تاثر دیا ہے۔ ان کا پیغام ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اتنے دن میں ہم یہ کردیں گے اور آپ دیکھتے رہ جائیں گے۔ 100دن کا بھی ایک پروگرام دیا جاچکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اب نئی حکومت کے قیام میں جو دیر ہورہی ہے اس میں تحریک انصاف کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہاں، اس وقفے کی اسے بھی اس لئے ضرورت پڑگئی کہ تمام انتظامات کے باوجود، قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں وہ واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ سو اب اسے بارہویں ، تیرہویں اور آپ گنتے جائیے کہ کتنے اور کھلاڑیوں کی ضرورت پڑگئی ہے۔ گویا میدان میں اترنے سے پہلے ہی سیاسی کھیل کے کئی ایسے دائو پیچ انہیں سیکھنا پڑرہے ہیں کہ جن کو وہ ہمیشہ ’’فائول‘‘ کہتے آئے تھے۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ حالیہ انتخابی مہم میں عمران خاں زور دے کر یہ کہتے رہے کہ تحریک انصاف میں آزاد امیدواروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کیوں کہ تحریک انصاف ایک نظریہ ہے اور لوگ سوچ سمجھ کر اس نظریے کو ووٹ دیں۔ اب ہم یہ ڈرامہ دیکھ رہے ہیں کہ جہانگیر ترین کیسے اپنا جال لہرا کر آزاد امیدواروں کی تتلیاں پکڑ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں ایسی کئی تصویریں گشت کررہی ہیں کہ فلاں امیدوار کیسے جہانگیر ترین کے ذاتی جہاز میں سوار ہے اور پھر پارٹی کا مفلر لٹکائے ، عمران خاں کی خدمت میں حاضری دے رہا ہے۔ ایک تو ایسے منتخب آزاد امیدوار نے پارٹی میں شرکت کی ہے کہ جس نے تحریک انصاف کے امیدوار کو ہرایا تھا۔ آپ کہیں گے کہ سیاست تو ہے ہی اقتدار کا کھیل اور جو کچھ تحریک انصاف یا اس کی مخالف جماعتوں کا اتحاد کررہاہے وہ جائز ہے۔ لیکن مجھے اسلم اظہر کی برسوں پہلے کہی گئی یہ بات یاد آرہی ہے کہ کیا ہم اکیسویں صدی میں ننگے پائوں داخل ہوں گے؟ تو کیا تحریک انصاف نئے پاکستان میں سمجھوتے کی چادر اوڑھ کر داخل ہوگی؟
جو کچھ بھی ہو، موجودہ صورت حال اطمینان بخش بالکل نہیں۔ ایک تو یہ کہ تحریک انصاف کی تمام مخالف جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کا شور مچارہی ہیں۔ احتجاج کے امکانات بھی ہیں۔ اپوزیشن کا اتحاد ہر محاذ پر تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ امید تو یہ کی جانی چاہئے تھی کہ انتخابات کے نتائج بپھرے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دیں گے۔ ماردھاڑ کے باب کا خاتمہ ہوگا۔ سیاسی درجہ حرارت میں کمی واقع ہوگی۔ اور یہ سب اس لئے اہم ہے کہ اب ہمیںٹھنڈے دل سے پوری صورت حال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا ہے کہ ہم نے ان انتخابات میں کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔ انتخابی مہم کی گرما گرمی اور سمجھ میں نہ آنے والے اقدامات نے غور فکر اور سنجیدہ گفتگو کو بہت مشکل بنادیا تھا۔ افسوس کہ وہی ماحول ابھی تک قائم ہے۔ ووٹوں کی گنتی میں جو خلل پڑا اس نے انتخابات کے دامن کو کسی حد تک داغدارکردیا ہے۔ کئی ایسےشکوک پیدا ہوگئےہیں کہ جو کسی عدالت کے فیصلے سے رد نہیں کئے جاسکتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب ہمیں یہ مہلت ملے گی کہ ہم پاکستان کے موجودہ بحران کا معروضی تجزیہ کرسکیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کی جمہوریت مضبوط ہوئی ہے یا اب اس کا مستقبل تابناک دکھائی نہیں دے رہا؟ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں ہے۔ لیکن اگر انتخابات شفاف اور منصفانہ نہ ہوں تو پھر ملک یا معاشرہ جمہوریت کی نعمتوں سے محروم ہی رہتا ہے۔ میں ان خدشات سے واقف ہوں کہ جس کا اظہار کئی مبصروں نے نجی محفلوں میں یا بین السطور بیانات میں کیا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے کئی قومی اداروں کی کارکردگی کو دیکھاہے اور ہم نہیں جانتے کہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ ا ن اداروں کے مستقبل پر بھی ان انتخابات کا کیا اثر پڑے گا۔ کتنا اقتدار کس کے پاس ہے اور کتنا رہے گا ابھی واضح نہیں۔ عمران خاں اگر پورے اعتماد کے ساتھ حکومت بنالیتے ہیں تو یہ تو الگ بات ہے کہ وہ اپنے وعدے کب اور کیسے پورےکریں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا جمہوری آزادیوں اور طور طریقوں کو بھی فروغ ملے گا اور ہم بے خوف ہو کر اپنی بات کہہ سکیں گے۔ اپنے مسائل کو اجاگر کرسکیں گے۔ ابھی تک تو عمران خاں نے اپنے کسی بیان میں یہ اشارہ نہیں دیا کہ وہ فکر اور اظہار کی آزادی کو جمہوریت کی بنیاد سمجھتے ہیں اور وہ ان حدود سے واقف ہیں جوآئین نے تمام قومی اداروں پر نافذ کی ہیں۔ لیکن ہمیں امید کرنا چاہئے کہ ان کی حلف برداری کے بعد ایک نئی جمہوری حکومت قائم ہوسکے گی۔ اور پھر شاید اس بحث کی بھی ضرورت نہیں رہے گی کہ جمہوریت آخر ہے کس چڑیا کا نام!
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور وٹس ایپ رائے دیں۔00923004647998)

تازہ ترین