ابنِ حمید
پہلی نظر اور پہلا قدم ’’جادو وہ، جو سر چڑھ کر بولے‘‘ کی طرح ہوتا ہے۔ اس مقولے پر یقین ہمیں اس وقت آگیا، جب ہم نے حالیہ انتخابات کے دوسرے، تیسرے دن متوقع (یقینی) وزیراعظم کپتان عمران خان کو قوم سے غیرسرکاری خطاب کرتے ہوئے دیکھا۔
ستاروں پر کمند ڈالنے والے عزم و ارادے سے معمور اور خلوص و چاہت سے مخمور ان کا مدبرانہ اور سنجیدہ خطاب ’’اوئے نوازشریف‘‘ کی تلخی کے بجائے ’’ارے یار نوازشریف‘‘ کی شیرینی سے لبریز دل میں اتر گیا۔ لبوں سے پھول جھڑنے کا محاورہ شاید ایسے ہی موقع کے لیے ادا کیا جاتا ہے۔
ایوب خان کی آمریت اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی جیت کو ہار میں بدلنے کی سازش کے بعد جب 1970ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد قائد عوام کا خطاب پانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے سیدھے سادھے عوام کو پاکستان کے تابناک مستقبل کے جو سنہرے خواب اور سبز باغ دکھائے تھے تو مظلوم عوام نے ان سے نہ جانے کیسی کیسی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ میاں نوازشریف کے، ایٹمی دھماکا کرنے کو عوام نے سراہا اور کشکول توڑنے کے ارادے کا بھرپور ساتھ دیا۔ راقم نے اسٹیٹ بینک کے کائونٹر پر مثالی تعاون کا قابل رشک منظر خود دیکھا، جب ایک بیوہ پنشنر نے اپنی 400 روپے کی پنشن میں سے 100 روپے (25فیصد) وزیراعظم کے ’’کشکول توڑنے والے‘‘ فنڈ میں دے کر اپنی حب الوطنی کی مثال قائم کردی تھی۔ 70 اور 90 کی دہائی کے بعد 2018ء میں ایک بار پھر مظلومیت، محرومیت اور لسانیت کی چکی کے دونوں پاٹوں کے درمیان پسے ہوئے مجبور و بے بس نوجوانوں کو روشنی کی کرن اور امید پہیم کی جھلک عمران خان کی شکل میں نظر آئی تو پھر انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ چاروں صوبوں بالخصوص کراچی کے حیرت انگیز نتائج اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ باشعور عوام نے رنگ و نسل کے نام پر سیاست کرنے والوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
عمران خان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ان کی کامیابی میں خواتین اور نوجوانوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور یہ ایسی بھرپور اور پراثر قوتیں ہیں، جو ’’سر پر بٹھانا‘‘ اور ’’تخت سے گرانا‘‘ بخوبی جانتی ہیں۔چوں کہ کھیل اور کپتان کا چولی دامن کا ساتھ ہے لہٰذا ہم چاہیں گے کہ کھیل ہی کھیل میں انہیں چند مشوروں سے ’’نواز‘‘ دیں۔
٭چوں کہ خواتین اور نوجوان کی زبردست سپورٹ سے آپ کو اتنی عظیم الشان کامیابی ملی ہے لہٰذا ان کے حقوق کا بے حد خیال رکھئے گا۔ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا مسئلہ ہو یا روزگار کی فراہمی کا، اگر آپ نے میرٹ (حق وانصاف) کی رسی مضبوطی سے تھام لی تو پھر ان شااللہ پاکستان میں اس کے ثمرات ملتے رہیں گے۔
٭داخلہ پالیسی میں اگر آپ نے ’’محبت سب سے، نفرت یا مخالفت کسی سے نہیں‘‘ کے فارمولے پر عمل کرلیا تو آپ سب ہی کے، ہر دلعزیز بن جائیں گے۔ خوش اخلاقی اور ایثار و قربانی کی چابی سے آپ مخالفت اور تنقید کے سارے باب بند اور خلوص و محبت اور بھائی چارہ کے تمام دروازے کھول سکتے ہیں۔
٭کہتے ہیں کہ انسان ہر شخص سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتا ہے آپ کو 2 اور 2 چار کی بجائے 22 کرنے اور ٹین پرسنٹ 10% یا 90% مال بنانے والے بہت مل جائیں گے (اس وقت بھی آپ کے اردگرد) موجود ہوں گےاور ہیں۔ انہوں نے آپ کی انتخابی مہم میں کثیر سرمایہ بھی لگایا ہوگا۔ جس سے کئی گنا واپسی کے خواہش مند بھی ہوں گے، ان سے اپنے تعلقات اور دوستی کا واسطہ دے کر ایسے اقدامات سے گریز کرنے کی درخواست کردینا۔
٭خارجہ پالیسی آپ کی پڑوسی ملک بھارت کی طرح ہو، جس نے ماضی میں امریکا کے مقابلے میں روس سے تعلقات استوار کئے مگر پھر امریکا، یورپی ممالک اور اب پاکستان کے بہترین دوست چین سے بھی مراسم بڑھا رہا ہے۔
٭یہ کہتے ہوئے دل دکھتا اور بڑی شرم آتی ہے کہ ایک زمانے میں بھارت اور بنگلہ دیش کی کرنسی ہم سے کم اور نصف تھی، جو اب ہم سے دگنی آگے نکل گئی ہے۔ یہی کمر توڑ مہنگائی کا سبب ہے۔
٭پاکستان کو مدینہ المنورہ جیسی ریاست بنانے کا جو آپ نے اعلان کیا تھا، ماشااللہ اگر ایسا ہوجائے تو پھر تو ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے، کیوں کہ جب شریعت کا نظام نافذ ہوگا تو ، سودی نظام سمیت (جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے) بلکہ ساری خرافات اور برائیاں ختم ہوجائیں گی۔
٭عوام الناس کے روزمرہ کے سنگین مسائل میں سیوریج، کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں۔ آپ کی حکومت نے اگر ترجیحی بنیادوں پر چند ماہ میں یہ مسائل حل کردیئے تو یقین جانیں کے لوگ آپ پربھی دل و جان سے صدقہ واری ہوجائیں گے۔
٭سابقہ حکومت کے جاری و ساری تمام پروجیکٹ کی جلد سے جلد تکمیل اور اہم منصب پر فائز اہل افراد کو برقرار رکھنے کی پالیسی آپ کی پائوں کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادے گی اور نہ صرف مذکورہ افراد بلکہ عوام الناس کا مخالف طبقہ بھی آپ کا گرویدہ ہوجائے گا۔
٭محترم کپتان صاحب! ہزاروں خواہشیں ایسی کہ مصداق جس قدر ملک میں مسئلے مسائل ہیں اس سے کئی گنا ہم آپ کو مفید بلکہ مفت مشورے دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہیں گے کیوں کہ اپنے وطن سے محبت اور اس کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن دیکھنے کا جذبہ ہمارے دل میں بھی ہے اگر آپ نے شروع کے تین ماہ میں اپنے منشور اور دیگر پہاڑ جیسے مسائل کو حل کرنے میں کچھ فیصد بھی کامیابی حاصل کرلی تو یقین جانیے کہ یہ پاکستانی قوم اور اس کا یک ایک فرد بالخصوص نوجوان آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اور ایک نئے پاکستان کی تعمیر میں کسی قیمت پر پیچھے نہیں رہیںگے۔