ہمارے ملک میں انتخابات پہلی مرتبہ نہیں ہوئے، مگر حالیہ انتخابات اس حوالے سے انتہائی اہم تھے کیوں کہ پہلی مرتبہ نوجوان ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔تاہم نوجوان ووٹرز جنہیں عمومی طور پر ’’سوشل میڈیا جنریشن‘ ‘بھی کہا جاتا ہے،نہ صرف اس بار پُر جوش انداز میں ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلے بلکہ انہوں نے انتخابی مہم، جلسوں، ریلیوں میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ ووٹ کی اہمیت اور اپنے قومی فریضے کی ادائیگی کے لیے صبح ہی سے پولنگ اسٹیشنز میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے اس اُمید سے ووٹ دیا ہےکہ منتخب حکومت ان کے مسائل کے حل کے لیے موثر اقدامات کرے گی، صرف وعدوں ، نعروں تک ہی محدود نہیں رہے گی، بلکہ اقتدار میں آکران وعدوں کو پورا بھی کرے گی۔ان کے مسائل حل کرے گی۔ گزشتہ دنوں ہم نے چند نوجوانوں سے سوال کیا کہ منتخب منتخب حکومت سے ان کی توقعات کیا ہیں؟ہمارے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے کہا آپ بھی پڑھیے اور آپ کو کیا توقعات ہیں، کن مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرانے کے خواہش مند ہیں، ہمیں بتائیں، آپ کی آراء بھی ہم شائع کریں گے۔
اسرٰی بتول جامعہ کراچی میں شعبۂ فنون تعمیر (آرکیٹیکچر)میں زیر تعلیم ہیں،انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے ہے، ماضی میں یہ علاقہ کھیل کود اور دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں کے حوالے سے عروج پر تھا، پھر رفتہ رفتہ یہ سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔ لیکن آج حال یہ ہے کہ یہاں کا نوجوان جب کسی جگہ ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جاتا ہے، تو اسے نوکری نہیں ملتی، چاہے وہ کتنا ہی اہل کیوں نہ ہو۔ کیا ہم اس شہر کے رہائشی نہیں ہیں؟ ہمیں بھی بہتر روزگار چاہیے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع نہیں دئیے جاتے، اس علاقے کا نوجوان خداد صلاحیتوں سے مالا مال ہے، پینٹنگ ہو یا فوٹوگرافی، موسیقی ہو یا رقص، تھیٹر ہو یا فلم میکنگ، فٹ بال ہو یا اسٹریٹ کرکٹ ، اس نےہر میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایاہے۔نو منتخب حکومت سے نوجوانوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں، جو وعدے کیے گئے ہیں، اب ان کے پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہمیں تعلیمی سہولتیں، روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں۔ کھیل کے میدان اور پارک ہمارے ہی علاقے میں نہیں ہر علاقے میں ہونے چاہییں۔
ابیرہ منیرنجی یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہم سے کہا ، ہم پاکستانی نوجوان کسی ایک نہیں ہزاروں مسائل سے دوچار ہیں، میں نےحالیہ انتخابات میں، اپنی زندگی کا پہلا ووٹ ڈالا، میں اور میرے ساتھی بے حد پر جوش تھے ، ووٹ ڈالنے سے قبل ہم نےسیاسی جماعتوں کےمنشورکے حوالے سے تبصرے ، بحث و مباحثے بھی کیے، تاکہ اس بار ایسی حکومت کا چناؤ ہو سکے ، جو اس ملک ، بالخصوص ہم نوجوانوں کے لیے بہتر کام کرے۔ میرے خیال میں ہمارے ملک کے نوجوان جہاں بے تحاشا مسائل سے دوچار ہیں،لیکن اہم مسئلہ یہ ہےکہ ہمارے لیے کھیل کود کے میدان نہیں ہیں،اسی وجہ سے بیش تر نوجوان ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ میں کالج کےدنوں ہی سے تیر اندازی کی کھلاڑی ہوں، صوبائی سطح پر بھی کھیلتی ہوں، لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کی اس طرح سے رہنمائی، سر پرستی اور پزیرائی نہیں کی جا تی جیسے کی جانی چاہیے ، یہی وجہ ہے کہ نوجوان کھلاڑی کرکٹ یا ہاکی کے علاوہ دیگر کھیلوں کا رخ نہیں کرتے۔ کھلاڑیوں کو بآسانی نوکری نہیں ملتی، ماضی کی ایسی کئی مثالیں ہیں، جہاں مختلف کھیلوں میں ملک کا نام روشن کرنے والے یا میڈل جیتنے والے کھلاڑی تنگ دستی کی وجہ سے اپنے میڈلز فروخت کرتے ہوئے نظر آئے۔ مجھے منتخب حکومت سے توقع ہے کہ وہ ملک کے کونے کونے بالخصوص پسماندہ علاقوں میں کھیلوں کے فروغ کے لیے کام کرے گی،ہر سطح پر ٹیموںکے انتخاب کا نظام شفاف بنائے گی، نوجوان کھلاڑیوں کو کم فیس میں بہترین کوچنگ فراہم بھی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ہماری بنیادی ضروریات مثلاً تعلیم ، روزگار کی بہتر سہولتیں، فی الحال تو یہی توقعات ہیں، جو ہمارے اہم مسائل ہیں۔
عثمان خالد سرکاری کالج سے آرٹس کے شعبے میں گریجویشن کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کہنےکو تو یہ ملک نوجوانوں سے مالا مال ہے،یعنی اُن کی آبادی زیادہ ہے، انہیں ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کیا جاتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس اثاثے کو زنگ لگ رہا ہے، میرے کتنے ہی دوست صرف بے روزگاری اور امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے بیرون ملک چلے گئے، ان میں سے کئی نوجوان انتہائی قابل تھے ، جنہیں اگراپنے ملک میں نوکری مل جاتی تو وہ بہترین کار کر دگی دکھا سکتے تھے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے، ہر سال لاکھوں نوجوان فارغ التحصیل ہوتے ہیں ، لیکن متعلقہ شعبے میں ملازمت نہ ملنے کے باعث مایوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس بار اس عہد سے ووٹ ڈالا ہے اور پُر امید ہیں کہ اب ہماری قسمت ضرور بدلے گی، کیوں کہ متوقع وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں فراہم کریں گے، انہوں نے اپنی تقریر میں بھی یہ بات دہُرائی کہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے، اس لیے نو منتخب حکومت سےامید ہے کہ وہ وطن عزیز سے بے روزگاری کا مکمل نہیں تو کم از کم ستّر فی صد تو خاتمہ کر ہی دے گی۔ کاش ہماری امیدیں نہ ٹوٹیں اور اس ملک سے بے روزگاری کا جلد خاتمہ ہو جائے۔
کاشف جا ویدعلامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی سے شعبۂ ابلاغ عامہ میں ایم ایس سی کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے، قوموں نے زوال سے عروج کا سفر صرف اور صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھ کر ہی طے کیا ہے۔ تعلیم انسان کو شعور فراہم کرتی ہے۔ اسی کی بہ دولت ایک معاشرہ ترقی کی راہ میں دوسری اقوام سے مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ جب تک ہم نظام تعلیم کے ساتھ ،تعلیمی اداروں کی حالت بہتر نہیں بنائیں گے،تب تک کام یابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتے،نسل نو کو اس ملک کی طاقت تو کہا جاتا ہے، لیکن معیار تعلیم ، نظام تعلیم بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی، نوجوانوں کو سستی تعلیم فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کر ناہر حکومت و سیاسی جماعت کا وطیرہ بن گیا ہے، ہم میں سے اکثر نوجوان صرف معاشی بد حالی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے، جب کہ میرا خیال ہے کہ ہمارا بنیادی مسئلہ مہنگی تعلیم ہے،گر چہ ملک میں معیاری تعلیم تو فراہم کی جا رہی ہے، لیکن مخصوص طبقہ ہی اس سے فیض یاب ہو تاہے، کیوں کہ نجی کالج وجامعات کی مہنگی فیسیں دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں خاطر خواہ ترقی نہیں کر پائے ہیں۔ میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے یہی توقع رکھتا ہوں کہ نظام تعلیم کو بہتر بنانے اور سستی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کریں گی۔ تعلیم کے نام پر صرف بجٹ دے دینا کافی نہیں ہے، چیک اینڈ بیلنس بھی رکھنا چاہیے کہ وہ پیسہ ، جو در اصل عوام کے ٹیکس کا ہے، وہ صحیح جگہ استعمال بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔
مہک سیدنجی یونیورسٹی میں بی بی اے کی طالبہ ہیں،وہ کہتی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ملک میں صفائی ستھرائی کا ناقص نظام اور صحت کے مسائل ہیں، جس کا اندازہ دیکھ کربہ خوبی ہوتا ہے۔ بچپن میں پڑھا تھا، ’’تن درستی ہزار نعمت ہے‘‘ لیکن شاید یہ صرف کتابوں کی حد تک ہی محدودہے۔ اس میں قصور ہم سب کا ہے، کیوں کہ سڑک پر کچرا ہم ہی پھیلا تے ہیں، نوجوانوں میںپان گٹکے، چھالیہ، سگریٹ کی عادت کسی غیرنے نہیں لگائی بلکہ وہ خود ان کے عادی ہوئے ۔منتخب حکومت سے توقع ہے کہ وہ صحت عامہ کے مسائل حل کرنے کے ساتھ گٹکے، چھالیہ جیسی مضرِ صحت اشیاء کی فروخت پر صرف پابندی نہیں لگائے گی بلکہ کڑی نگرانی بھی رکھے گی کہ دوبارہ اس کی فروخت شروع ہی نہ ہو۔ کہتے ہیں نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں، جب تک یہ سرمایہ صحت مند نہیں ہوگا تب تک ہم یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ملک ترقی کرے گا۔