• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچھی یا سمجھدار بہو

نائلہ صدیقی

کیا آپ ایک ’اچھی بہو‘ بننا چاہتی ہیں؟ اگر ہاں! تو سن لیجئے ، اچھی بہو بننے میں محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور مزدوری کچھ نہیں ملتی ،لہٰذا کوشش کیجئے کہ اچھی بہو بننے کے بجائے ’سمجھدار بہو‘ بنیں۔ سمجھدار بہو کیسی ہوتی ہے، آیئے! ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

ایک سمجھدار بہو کبھی بھی مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) سے پریشان نہیں ہوتی کیونکہ اسی سسٹم میں رہ کر وہ اپنے آرام کا خیال رکھ سکتی ہے۔ اس سے جو بھی کام کرنے کے لیےکہا جائے، کبھی انکار نہیں کرتی لیکن کام اس انداز سے کرتی ہے کہ’’ آئندہ اُس سے نہ کرایا جائے‘‘۔ مثلاً کھانا پکانے کے لیے کہا جائے تو وہ بے وقوف بہوئوں کی طرح کباب، کوفتے یا کڑاہی جیسے کھانے پکانے کے بجائے ایسی سبزی پکاتی ہے جس کا نام بھی کسی کو معلوم نہ ہو۔ دال میں جی بھر کر پانی ڈالتی ہے، کہ دال نظر ہی نہیں آتی، پھر اس میں نمک، مرچ جھونک کر دھیمی آنچ پر چڑھا دیتی ہے لیکن اسے اتارنے کی ذمے داری وہ اپنے سر نہیں لیتی۔

اگر’سمجھدار بہو‘ کو شام کی چائے بنانے کی ذمے داری دی جائے تو وہ اپنے جہیز کے سامان میں سے چائے کا تھرماس نکال لیتی ہے اور چائے بنا کر اس تھرماس میں ڈال کر میز پر رکھ دیتی ہے اور فارغ ہوکر چین کی بنسی بجاتی ہے۔ اب وہ اس تھرماس سے بالکل لاتعلق ہوجاتی ہے یعنی اس میں موجود چائے کتنی بدمزہ اور کڑوی ہوچکی ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے، یہ سب اس کے مسائل نہیں ہیں۔ اسے تو صرف چائے بنانے کے لیےکہا گیا تھا جو اس نے بنا دی اور اس مقصد کے لیے اپنا خوبصورت تھرماس بھی پیش کردیا، ورنہ اس کے سسرال والے تو فرسودہ طریقے سے چائے باربار بنا کر پیتے تھے لیکن اس عقلمند بہو نے سسرال میں جدید رجحانات متعارف کرائے ہیں۔

اب آیئے ،دوسرے مسائل کی طرف جو عام طور پر بہوئوں کو درپیش ہوتے ہیں۔ دیکھئے کہ ایک سمجھدار بہو انہیں کیسے حل کرتی ہے؟ مثال کے طور پر’’ شادی شدہ نند‘‘ ،یہ ایک نہایت اہم اور نازک معاملہ ہوتا ہے، جسے بہت سمجھداری سے نبھانا چاہئے۔ کچھ ناسمجھ بہوئیں نند کی اس قدر آئو بھگت اور خاطر تواضع کے مارے اس کے سامنے بچھ بچھ جاتی ہیں تاکہ وہ ان سے راضی اور خوش رہے جبکہ نند اس خاطرداری کی عادی ہوجاتی ہے اور اسے اپنا حق سمجھنے لگتی ہے۔ دوسری طرف بہو کا دل اکتانے لگتا ہے اور وہ بیزار ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہیں سے مسائل بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ سسرال والے اس کی سابقہ خدمات کو بھول کر اس کی نئی بدتمیزی یعنی شادی شدہ نند میں عدم دلچسپی کی شکایت ہر آئے گئے کے سامنے کرنے لگتے ہیں مثلاً یہ کہ ’’ہائے! ہماری بیٹی نے تو میکے آنا ہی چھوڑ دیا، کیا کرے بیچاری! یہاں کون سا اس کا استقبال ہوتا ہے؟ شوہر کے سامنے شرمندہ ہوتی ہے اسی لئے تو آنا چھوڑ دیا۔‘‘ 

اب بہو کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگتا ہے، لیکن سمجھدار بہو کبھی ایسی بے وقوفی نہیں کرتی۔ وہ پہلے دن سے شادی شدہ نند کو گھاس نہیں ڈالتی لیکن اپنا امیج بھی خراب نہیں ہونے دیتی۔ جیسا کہ بعض انتہا پسند بہوئیں، نند کے آنے پر کمرہ بند کرکے سو جاتی ہیں یا اپنے میکے چلی جاتی ہیں، اگر کبھی ملاقات کرنا پڑ جائے تو رکھائی سے بات کرتی ہیں لیکن عقلمند بہو ڈپلومیٹ ہوتی ہے اور اس طرح کی حرکتیں کرکے خود برا بننے کی بجائے نند کا پتا کاٹنے کے لیےاُس کے بھائی یعنی اپنے شوہر سے کام لیتی ہے۔ اس لئے وہ نند کے سامنے زبان چلانے کے بجائے یہ کام اس کے بھائی کو کرنے دیتی ہے، جس سے اس کا خون کا رشتہ ہے۔ اس لئے نند اتنا برا نہیں مانتی جتنا بھابی کے زبان چلانے کی صورت میں مان سکتی ہے۔ 

ڈپلومیٹ بہو شادی شدہ نند کو اپنی بڑی بہن قرار دے دیتی ہے۔ اسے چندا، رانی اور پیاری کا لقب دیتی ہے۔ اس کے موٹاپے کو اندرونی کمزوری کا سبب قرار دیتی ہے۔ اس کے شوہر کو کسی مشہور فلمی اداکار، گلوکار یا کرکٹر سے مشابہہ بنا دیتی ہے۔ ان کی چھچھوری گفتگو کو شگفتگی اور زندہ دلی کا نام دیتی ہے۔ جب موٹی تازی نند بھوپالی یا حیدرآبادی سوٹ پہن کر آتی ہے تو بجائے ہنسنے یا چڑنے کے اسے مغل شہزادی کا لقب دے دیتی ہے۔ نند کے گھر آنے پریا گیٹ کی گھنٹی بجنے پر اپنے کمرے میں چھپنے یا تلملانے کے بجائے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتی ہے اور اسے کسی کمرے میں بٹھا کر باتیں شروع کردیتی ہے۔ اتنی باتیں کہ وہ سنتے سنتے بیزار ہوجائے۔ جب ساس یا سسر چائے ناشتے کے لیے بہت زور ڈالیں تب اٹھتی ہے اور باورچی خانے میں جاکر ناشتے کا اہتمام کرتی ہے۔ بچے کھچے چپس، بھسکے ہوئے بسکٹ، گلے ہوئے کیلے، داغ لگے سیب اور باسی بے مزہ نمکو ٹرالی میں سجا کر نند کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’آپ کے بھائی تو سو رہے ہیں۔ میں نے اتنا جگایا، وہ اٹھے ہی نہیں۔ اٹھ جاتے تو بازار سے کچھ لے آتے، اس وقت گھر میں تو بس یہی کچھ ہے۔ مجھے تو خود اتنی شرم آرہی ہے کہ آپ لوگ بھی کیا کہیں گے کہ بھابی نے ڈھنگ سے چائے بھی نہیں پلائی۔‘‘ اس بیان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نند سمجھ جائے کہ بھابی تو بے قصور اور معصوم ہیں، اصل قصور تو بھائی کا ہے جو بہن کی آمد پر جاگنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔

ایک سمجھدار بہو یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ زندگی میں سچ مچ کی بیماریاں بھی آتی رہتی ہیں اور پھر انسان کو ڈاکٹر کے یہاں جانا ہی پڑتا ہے اس لئے وہ ڈاکٹر کا انتخاب نہایت سوچ سمجھ کر کرتی ہے یعنی ایسی جگہ علاج کا سلسلہ شروع کراتی ہے جو اس کے میکے سے قریب اور سسرال سے بہت دور ہو۔ اب اگر ڈاکٹر کی کلینک آتے جاتے ہوئے راستے میں اس کا میکہ آتا ہو تو پھر بھلا شوہر کو وہاں رکنے پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ اگر شوہر یا سسرال والے اپنے فیملی ڈاکٹر یا کسی قریبی اسپتال میں علاج کرانے کا مشورہ دیتے ہیں تو عقلمند بہو فوراً اس ڈاکٹر سے دو تین مریضوں کی موت، بے ہوشی یا پاگل پن کے قصے منسوب کردیتی ہے اور اس ڈاکٹر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتی رہتی ہے، جو اس کی امی کے گھر پاس رہتا ہے اور اس کے میکے والوں کی صحت کا ضامن ہے۔ اگر سسرال والے زبردستی اپنے ڈاکٹر سے علاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بہو ایک ہی دوا کی خوراک کھا کر بستر پکڑ لیتی ہے۔ ہائے ہائے کرتی ہے، چکر آنے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا آنے اور بے ہوش ہونے کا واویلا مچاتی ہے۔ آخرکار سسرال والے گھبرا کر اسے اسی ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتے ہیں جو اس کے والدین کے گھر کے پاس رہتا ہے اور یوں یہ سلسلہ چل نکلتا ہے۔

اگلا مسئلہ ہے سسرال میں آنے والے مہمانوں یعنی سسرالی عزیز رشتے داروں کا! یہ ایک بہت نازک مسئلہ ہے۔ یہ رشتہ دار کبھی کبھی سسرال والوں کے کام آجاتے ہیں مثلاً شادی بیاہ وغیرہ کے مواقع پر ان کی موجودگی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، اس لئے سسرال والے کبھی کبھی ان لوگوں کو گھاس ڈالتے نظر آتے ہیں۔ کچھ نادان بہوئیں بے سوچے سمجھے انہیں گھاس ڈالنے کے معاملے میں شریک ہوجاتی ہیں یعنی بڑھ چڑھ کر سسرالی عزیزوں کی خاطر تواضع کرنا شروع کردیتی ہیں جس پر سسرال والے چڑ جاتے ہیں کہ یہ خواہ مخواہ اپنے نمبر بنانے کی کوشش کررہی ہیں اور سب کی نظروں میں اچھا بننے کے چکر میں ہیں۔ 

دوسری طرف کچھ بے وقوف بہوئیں ایسے مہمانوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہیں اور ان کی خاطر مدارات میں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں جس کی بناء پر ان کے خلاف یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ بہو تو نکمی، کاہل، بداخلاق ہے وغیرہ وغیرہ اور سسرالی عزیز بھی ان کے نکمے پن پر ایمان لے آتے ہیں۔ بہو اگر مہمانوں سے زیادہ گھلنے ملنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ شک کیا جائے گا کہ وہ ضرور دوسروں کو اپنی سسرال کے خفیہ راز بتا دے گی یا سسرالی عزیز (جو بہت چالاک ہوتے ہیں) بہو سے گھر کے اندر کی باتیں اگلوا لیں گے وغیرہ وغیرہ (کیونکہ ہر سسرال میں کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں جنہیں بہو کہیں نہ کہیں اگلنا چاہتی ہے) ہوشیاروسمجھدار بہو ان تمام معاملات کو بہت بہتر طریقے سے ہینڈل کرتی ہے یعنی جب سسرالی رشتے دار لائونج یا ڈرائنگ روم میں بیٹھے بور ہورہے ہوں اور تمام میزبان یعنی بہو کے سسرال والے اپنے اپنے کمروں میں گھسے ہوئے ہوں تو وہ مہربان بہو بن کر مہمانوں کو کمپنی دینے نہیں پہنچتی جب تک کہ کوئی سسرالی چوکیدار اس کی نگرانی کے لیے وہاں موجود نہ ہو۔ وہ مہمانوں سے دلچسپ گفتگو کرنے اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی زحمت بھی نہیں کرتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ بات اس کے سسرال والوں سے برداشت نہیں ہوگی اور مہمان بھی بہو کو خوش اخلاق سمجھ کر زیادہ آنا جانا شروع کردیں گے اور یہ بات بھی سسرال والوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگی کیونکہ وہ اپنے رشتے داروں کو صرف ضرورتاً استعمال کرنے کے قائل ہیں۔ سمجھدار بہو سسرالی عزیزوں رشتے داروں پر ترس کھانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ لوگ اس بوریت اور بے عزتی کے عادی ہیں البتہ ایسے مواقع اور مقامات پر یہاں کوئی سسرالی نمائندہ موجود نہ ہو، وہاں یہ عقلمند بہو ان عزیزوں کی دل جوئی ضرور کرتی ہے لیکن خفیہ طور پر…!

سمجھدار بہو اپنے میکے یعنی خاندان والوں کے آنے پر کیا کرتی ہے؟ ان مہمانوں کے آنے پر سسرال والوں کے منہ بن جاتے ہیں، ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں اور سبھی لوگ ادھر ادھر ’’ضروری‘‘ کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ ضروری کام بہو کے میکے والوں کے واپس جانے کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ اگر مجبوراً بہو کے کسی مہمان سے ملنا پڑ جائے تو ناگواری اور بے زاری صاف ظاہر کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو پیش کئے جانے والے چائے پانی پر گہری نظر رکھی جاتی ہے اور مہمانوں کے رخصت ہوتے ہی بہو کی فضول خرچی پر لیکچر کا آغاز ہوتا ہے جس کے دوران اپنی سلیقہ مندی پر روشنی ڈالی جاتی ہے کہ وہ کس طرح ڈیپ فریزر میں پوشیدہ سامان سے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی ہیں۔ 

اس کے بعد بہو کے رشتے داروں کی خامیاں اور بدتمیزیاں گنوائی جاتی ہیں اور ان کی بداخلاقی اور بے ڈھنگے پن کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ کچھ خوددار یعنی بے وقوف بہوئیں ان تمام باتوں سے گھبرا کر اپنے عزیزوں کو اپنی سسرال آنے سے منع کردیتی ہیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں کیونکہ اس طرح تو وہ خود اپنے خاندان سے کٹ کر رہ جاتی ہیں۔ دوسری طرف کچھ بہوئیں انتقاماً شوہر کے عزیزوں سے ملنا چھوڑ دیتی ہیں لیکن یہ بھی سراسر حماقت ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں سسرال والوں کو بہو کے اوپر بداخلاق کا لیبل لگانے میں مدد ملتی ہے۔ 

عقلمند بہو ایسا کچھ نہیں کرتی بلکہ دھڑلے سے اپنے میکے والوں کو اپنے گھر بلاتی ہے، ان سے خوب ہلڑبازی کراتی ہے، ان کے ساتھ آئوٹنگ اور پکنک کے منصوبے بناتی ہے، ریسٹوران میں پارٹیاں کرتی ہے اور کسی سسرال والے کو اس میں نہیں گھسنے دیتی۔ اگر سسرال والے شکایت کریں کہ ہمیں کیوں نہیں شامل کیا گیا تو معصوم بن کر کہتی ہے کہ ’’آپ لوگوں کو وہ لوگ اچھے نہیں لگتے ناں! آپ لوگ ان سے مل کر بور ہی ہوتے اس لئے آپ لوگوں کو ساتھ نہیں لے گئے۔ بس! اتنی سی بات ہے۔‘‘

نادان بہوئوں کو سسرال میں ایک اور مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ہے ’’نند کے بچے‘‘ ہر سسرال میں ایک نہ ایک نند ایسی ضرور ہوتی ہے جو اپنے بچوں کی ذمہ داری سے گھبرا چکی ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی بدتمیزیوں، چڑچڑے پن اور ضد سے تنگ آچکی ہوگی لہٰذا یہ نند فوراً بھابی کو اپنے بچوں کا انچارج بنا دیتی ہے۔ جب بھی اس کو کہیں آنا جانا ہو، شاپنگ کرنی ہو یا گھر پر آرام کرنا ہو، اپنے بچوں کو بھابی کی نگرانی میں دے کر چلی جاتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ امی! ذرا ان بچوں کو دیکھ لیجئے گا۔ اب امی یعنی ساس صاحبہ جو بہو کے آنے کے بعد اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتیں، وہ بھلا نند کے ہنگامہ خیز بچوں کو کیا دیکھیں گی؟ وہ تو ان بچوں کے آتے ہی اپنے کمرے میں چلی جاتی ہیں اور بہو کا یہ فرض سمجھا جاتا ہے کہ وہ نرمی، شفقت اور انسانی ہمدردی سے کام لیتے ہوئے ان بچوں کی دیکھ بھال کرے، انہیں کھلائے پلائے، ان کی شرارتوں پر ہنسے اور اپنے بچوں کو ان سے پٹوائے۔ اگر کبھی اس فرض میں کوتاہی ہوجائے تو نند سمیت سسرال کی پوری کابینہ بہو سے ناراض ہوجاتی ہے۔ ’’کیا اب بچے اپنی ننھیال میں نہیں آسکتے؟‘‘ (حالانکہ پوری ننھیال خود ان بچوں سے دور بھاگتی ہے) سمجھدار بہوئیں یہ روگ نہیں پالتیں۔ جس دن نند اپنے بچے ان کے گھر چھوڑ کر جاتی ہے، اس کے دو چار دن کے بعد بہو اپنے بچے نند کے گھر چھوڑ آتی ہے۔ اس نسخے پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رفتہ رفتہ نند کے بچوں کی آمدورفت اور قیام کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔

کچھ نادان بہوئیں سسرال والوں کو قیمتی تحفے دے کر ان کے دل جیتنے کی کوشش کرتی ہیں جو کہ ایک بڑی غلطی ہے۔ سسرال والے بہو سے تحفے لے کر کبھی خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کے معیار، رنگ، ڈیزائن، سائز وغیرہ پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں اور آخر میں بہو پر فضول خرچ اور خریداری کی تمیز نہ ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ایک ہوشیار بہو ان معاملات میں نہیں پڑتی۔ اول تو وہ کسی کو تحفے دیتی نہیں اور اگر دیتی بھی ہے تو بازار سے نئی اشیاء خریدنے کی بجائے اپنی الماری کے کسی کونے سے کوئی انجانے رنگ کا سوٹ (جسے وہ خود بھی پسند نہیں کرتی) موٹے کھدر کا لباس (خواہ کتنی ہی گرمی پڑ رہی ہو) دھینے یا ادرک کی خوشبو والا پرفیوم یا سخت چمڑے سے بنا ہوا پرس سسرال والوں کی نذر کردیتی ہے۔ یہ وہ تمام اشیاء ہوتی ہیں جو بہو کو اپنی شادی کے وقت تحفتاً ملی تھیں اور ناپسندیدہ ہونے کی وجہ سے الماری کے ایک کونے میں پڑی رہتی ہیں ،عقلمند بہو سسرال والوں کو تحفہ پیش کرنے کیلئے ہمیشہ الماری کے اسی کونے کا استعمال کرتی ہے۔

تو قارئین! دیکھا آپ نے کہ ایک ڈپلومیٹ اور عقلمند بہو کس طرح سسرال میں ایک کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتی ہے۔ سسرال والوں کی خدمت کرکے ان کے دل جیتنا پرانے زمانے کا فیشن تھا۔ نئے دور کی بہوئیں نہ صرف اس فیشن کو ترک کرچکی ہیں بلکہ سسرال میں اپنی زندگی کو آسان اور مطمئن بنانے کیلئے نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے جدید نسخوں کا استعمال کررہی ہیں اور ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں۔

تازہ ترین