• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مُٹھی بھر مٹی

عائشہ یاسین

’’اماں بی!اک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اتنے چھوٹے سے گھر میں یہ پودے کیوں لگا رکھے ہیں، نا جانے اس مٹی میں کیا کھوجتی رہتی ہیں آپ‘‘۔ اماں بی اپنی بہو کی آواز پر لمحہ بھر کو چونکیں اور نگاہ اٹھتے ہی پہلی نظر قائد اعظم کے مزار پر پڑی جوان کےگھر کی بالکونی سے دکھائی دے رہا تھا ،جہاں روشنی کے قمقمے جگمگا رہے تھے۔ ۔ ۔ جھریوں والے ہاتھوں میں اب بھی مٹی تھی،یہ دیکھ کر بہو نے حقارت سےان پر نظر ڈالی اوراپنے بیٹے کو نہلانے لے گئ۔

‘اماں جی ہم کہاں جا رہے ہیں’ نو سال کی زینب نے جب اپنی ماں کو ساما ن سمیٹتے دیکھا تو پوچھا۔ ۔ ۔ ‘آپ کو معلوم نہیں بٹیا!پاکستان جا رہے ہیں ہم اپنے پاکستان۔ ۔ ۔ ‘۔

اماں جی گو کہ بہت پریشان معلوم ہو رہی تھیں، مگر پھر بھی ان کی آنکھیں ہیرے کی مانند چمک رہی تھیں،کہ کہیں سے بھولا بھاگتا ہوا آیا۔ ۔ ‘اماں!بس ایک ہی گھٹری لینا وہاں تو اپنا سب کچھ موجود ہوگا نا۔ ۔ !’

یہ ہمارا چھوٹا سا گھر تھا، جہاں آم کے درخت کے سائے میں ہم تیرہ افراد رہتے تھے۔ اماں، ابا، داد،ا دادی، چاچا چاچی اور ان کے بچے اور ہم پانچ بہن بھائی۔ اور اب ہم اپنے وطن اپنے گھر جا رہے تھے۔ سامان باندھتے باندھتے میں نے اپنی مٹی کی گڑیا بھی ڈال لی۔ رات ہی ریڈیوپر پاکستان بنے کا اعلان ہوا تھااور لوگ پاکستان کا رخ کر رہے تھے۔ میں چھوٹی تھی، اس لیے اتنی سمجھ تو نہ تھی۔ ہاں ابا ،دادا اور محلے کے لوگوں کو ہاتھ میں ریڈیو تھامے کچھ سنتے اور جشن مناتے دیکھا تھا۔

ہم اپنے گھر کو خیر باد کہہ کر ریلوے اسٹیشن کی طرف نکل پڑے۔ گھر سےا سٹیشن تک کا سفر بڑا دشوار گزار تھا۔ ہم چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ جب گاؤں سے نکلے تو باہرعجب عالم تھا۔ لوگوں کا جم غفیرہجرت کو نکل پڑا تھا۔ابھی کچھ دور ہی چلے تو پتا چلا کہ ہندوؤں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کردیا ہے اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔

‘یہ قتل کیا ہوتا ہے اماں’میں نے پوچھا۔ ۔ ‘تو آنکھ بند کر کے سوجا بیٹا۔ بس دعا کر ہمیں ٹرین مل جائے۔ ‘اندھیرا ہو چلا تھا۔ ۔ بیل گاڑی کا شور دماغ کو دبوچ رہا تھا، کچھ فاصلے پر لوگ ڈنڈے اور بھالے پکڑے نظر آئے۔ ‘یااللہ!یہ کیا غضب ہورہا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ نورالدین چاچا یہ کہتے ہوئے اترے، مگر وہ ان ہندوؤں کے ہتھے چڑھ گئے۔ بیل گاڑی میں موجود سب لوگ سہم گئے۔ نور چاچا نے کوچوان کو نا رکنے کا اشارہ کیا اور بیل گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے چاچا کو مار ڈالا۔

‘ہم کہاں جا رہے ہیں اماں’میں نے پوچھا۔ پاکستان اماں بولی۔

اسٹیشن کا منظر دیکھ کر دل حلق کو آگیا، افراتفری کا عالم تھا، نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ آئے ٹرین کے انتظار میں بیٹھے تھے، کوئی زخمی پڑا تھا،کوئی بوڑھا اپنی سانسیں سنبھال رہاتھا تو کوئی عورت اپنے پلو سے لپٹے بیمار بچے کو حسرت سے دیکھ رہی تھی ،اتنے شور اور ہنگامےمیں بھی سب کے زبانوں پر بس ایک ہی نام تھا’’پاکستان۔‘‘

قائد اعظم کا پاکستان، جناح کا پاکستان۔لال ٹین کی روشنی میں مٹی پر ٹہنی سے آڑی ترچھی لکیریں بناتے ہوئے ایک مٹھی مٹی لے کر سونگھا تو اماں جی کی آواز کانوں میں پڑی۔ ۔ ۔ ‘اب دیکھ اس مٹی میں وہ بو نہیں رہی جو ہمیں اپنا پکارتی تھی، ہمیں بلاتی تھی اب تو یہاں سے جانا ہی ہوگا۔ ‘

بڑے انتظار کے بعد ٹرین کی سیٹی نے جگادیا، صرف اندھیرا ہی تھا، یہ نہیں معلوم کہ ہم کیسے آئے، کس ڈبے میں گھس پائے۔ بس یہ یاد ہے کہ ٹرین نہ جانے کتنے گھنٹوں شور مچاتی چلتی چلی گئی۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ اور ٹرین کی آواز سے جب آنکھ کھلی تو میرے ارد گرد لوگ لٹے پٹے زخمی پڑے تھے، کوئی آخری سانس گن رہاتھا تو کوئی لاش کے پاس بیٹھا ماتم کر رہا تھا۔ کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھا توکتنی بستیوں اور گاؤں سے اب بھی دھواں اٹھ رہا تھا، نہ جانے کتنے لوگوں کی ذبح شدہ لاشیں کسی ٹرین کے انتظار میں اب بھی پاکستان جانے کی خواہاں تھیں، مگر ہماری ٹرین بنا کہیں رکے چلتی گئ چھک چھک چھک چھک۔ ۔ ۔

اماں نے مجھے اٹھایا،زینب اٹھو !۔ ۔ آگیا ہمارا پاکستان،اترو جلدی اترو، اب سب ٹھیک ہو جائے گا، ابا نے اماں کو سمجھایا۔ ۔ ۔ دادا جی نے آخری بار آنکھیں اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا آگیا جناح کا پاکستان؟’ اور آنکھیں موند لیں۔ہم سب ٹرین سے اترے۔ ابا نے اترتے ہی سجدہ شکر کیا اور مٹی کو چوما۔ اماں جی نے مٹھی بھر مٹی ہاتھ میں بھر کر مجھے دیتے ہوئے کہا،دیکھ زینب کیسی سوندھی مہک ہے، کتنا پیار اور خلوص کی خوشبو آتی ہے، کتنی پاک ہے یہ مٹی،ہمارے پاکستان کی مٹی، دیکھ زینب آگیا ہمارا پاکستان’ اماں جی کے آنسو بند توڑ کے بہہ نکلے اور مٹی میں جذب ہو گئے۔

’’اماں بی آپ اب بھی یہیں کھڑی ہیں‘‘۔اپنے پوتے وارث کی آواز پر انہوں نےچونک کر ماضی کو پیچھے چھوڑ کر نظر اٹھا کر دیکھا تو واقعی سورج طلوع ہو چکا تھا۔ اماں بی نے مٹھی بھر مٹی کو سونگھا تو اس میں آج بھی بڑی سوندھی اور وفا کی خوشبو آ رہی تھی۔ شہیدوں کے لہو کی مہک آج بھی مہک رہی تھی جذبہ ایمانی سےُمٹھی بھر مٹی۔

تازہ ترین
تازہ ترین