• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

35 ارب کا منی لانڈرنگ کیس، کیوں نہ نواز شریف جیسی جے آئی ٹی بنادیں، چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ میں ʼʼجعلی بنک اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگʼʼ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس، میاں ثاقب نثار نے آصف علی زرداری، فریال تالپور اور دیگر ملزمان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کے لئے پانامہ پیپرز لیکس کیس کی طرز کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس کیس کی تحقیقات کے لئے بھی جے آئی ٹی تشکیل دے دیتے ہیں دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے گا، ایسی جے آئی ٹی بنائیں گے جیسی پانامہ پیپرز لیکس کیس میں میاں نواز شریف وغیرہ کے خلاف تحقیقات کے لئے بنائی تھی،فاضل عدالت نے سندھ پولیس کے چند افسران کی جانب سے کیس کے گواہوں کو ہراساں کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قائم مقام آئی جی ،سندھ پولیس کو معاملے کی انکوائری کر کے دو دن کے اندر اندرعدالت میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے پیر کے روز از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو ڈی جی ایف آئی اے، بشیر میمن نے رپورٹ پیش کی کہ سمٹ بنک، سندھ بنک اور یونائٹڈ بنک میں 29 مشکوک بنک اکائو نٹس کھولے گئے تھے ،مشکوک ٹرانزیکشنز جعلی اکاونٹس کے ذریعے ہوئے،ان کا کہنا تھا کہ طارق سلطان کے نام سے پانچ بنک اکائونٹس تھے، ابراہم لنکرز، لکی انٹر نیشنل کے تین مشکوک اکائونٹس ہیں، جسٹس اعجازالالحسن نے استفسار کیا کہ مشکوک بنک اکا ئونٹس سے رقم پھر کن بنک اکائونٹس میں منتقل ہوئی تھی ؟تو انہوںنے بتایا کہ اومنی گروپ سے رقم زرداری گروپ کو بھی منتقل ہوئی ہے ، اومنی گروپ نے 2 ارب 82 لاکھ جعلی بنک اکاونٹس جمع کرائے ہیں،چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ اومنی گروپ کے اکائونٹس کو جعلی کیسے کہہ سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اکائونٹ میں رقم جمع کرانے والے اصل لوگ ہیں تاہم رقم جن اکائونٹس میں جمع ہوئی ہے وہ اکاونٹس جعلی ہیں ، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جعلی اکائونٹس سے رقم واپس اپنے اکائونٹ میں لانے کا مقصد کیا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جعلی اکاونٹس سے رقم کہاں گئی ہے ؟عدالت کو وہ لسٹ پیش کریں کہ 29 اکائونٹس کس کس کے نام پر ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ اکاونٹس انہوں نے کھولے ہی نہیں ہیں، لگتا ہے کہ جعلی اکائونٹس کھول کر کالا دھن جمع کرایا گیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کالے دھن کو سفید کرنے سے فائدہ اٹھانے والا (بینفیشری )کون ہے؟انہوں نے استفسار کیا کہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید کدھر ہیں؟ جس پر ا نور مجید کے وکیل نے جواب دیا کہ وہ بیمار ہیں اور لندن کے ایک ہسپتال میں داخل ہیں،جس پر چیف جسٹس نے معنی خیز اندازمیں ریمارکس دیئے کہ جب بھی عدالت میں اس طرح کا کوئی مقدمہ آتا ہے تو لوگ ہسپتال پہنچ جاتے ہیں؟، عدالت انور مجید کو بلانے کا اختیار رکھتی ہے، انہیں کہیں کہ وہ آئندہ ہفتے ہر حالت میں عدالت میں پیش ہوں، اگر ایمبولینس میں بھی آنا پڑے تو بھی عدالت میں آجائیں، اومنی گروپ کی کتنی کمپنیز ہیں، اومنی گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کون ہیں،ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ اومنی گروپ نے 2 ارب 82 لاکھ روپے مختلف بنک اکانٹس میں جمع کرائے ہیں ،جس پر اومنی گروپ کے وکیل رضا کاظم نے بتایا کہ 5 سال سے انور مجید کا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اومنی گروپ کو 19 لوگ چلا رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہCrooks (بدمعاش) کو ہر کوئی اس کے نام سے جانتا ہے، انور مجید کو عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں، کب آئیں گے، ابھی معلوم کر کے بتایا جائے، اس کے بیٹے بھائی کون ہیں؟ جس پر ایک وکیل نے عدالت کو بتایا گیا کہ عبدالولی مجید ان کا بیٹا ہے او ر وہ بھی ملک سے باہر ہے، علی کمال، ذوالقرنین مجید، نمر مجید بھی ان کے بیٹے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو انہوںنے جواب ملا کہ میں معاون وکیل ہوں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو وکالت نامہ کس نے دیا ہے؟ آپ کس کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں؟ انہو ںنے پاور آف اٹارنی جمع کرائے بغیر اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی خدمات لئے بغیر اومنی گروپ کے وکلا ء کے دلائل دینے پر ناراضگی کا اظہار کیا اورریمارکس دیئے کیا بڑے لوگوں کیلئے قانون مختلف ہے ،عدالت کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دیں گے ،جعلی بنک اکائونٹس رکھنے والوں کو عدالت میں حاضری یقینی بنانی پڑے گی، انہوں نے اپنے اسٹاف کو حکم دیا کہ ان کے وکالت نامے چیک کریں، اور رضا کاظم کا وکالت نامہ بھی دیکھیں ، ڈی جی ایف آئی اے نے مزید بتایا کہ بحریہ ٹائون والوں نے 7 ارب 20کروڑ روپے اے ون کے اکائونٹ میں منتقل کیے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ زین ملک کہاں ہیں؟ انھیں کہیں وہ بھی19اگست کو عدالت میں پیش ہوں، ایف آئی اے 12 ارب 56 کروڑ روپے کی رقوم کی منتقلی کا تجزیہ کررہی ہے، جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ ری سائیکلنگ کے ذریعے پیسے مختلف اکائونٹس سے ہوکر منتقل ہوتے رہے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ جعلی بنک اکاونٹس کا ابتدائی ریکارڈ نہیں مل رہا تھا، جعلی اکائونٹس میں 35 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں، ؟سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے وکیل ، فاروق ایچ نائیک نے موقف اختیار کیاکہ ایف آئی اے حکام نے منی لانڈرنگ کا شور ڈالا ہوا ہے، پہلے دیکھا جائے کہ کیا کوئی جرم سرزد بھی ہوا ہے، انہوںنے استدعا کی کہ عدالت مقدمے کی پبلسٹی روکے، اس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ اتنی پبلسٹی تو ملے گی جتنی ہم دیں گے،اگر بلیک منی ثابت ہوئی تو چھوڑیں گے نہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم ھی چاہتے ہیں کہ ان الزامات کی تحقیقات ہوں لیکن ڈی جی، ایف آئی اے کو توقانون کا پتہ ہی نہیں ہے، یہ کیس بنکنگ کورٹ میں زیر سماعت ہے اور چالان بھی پیش ہو چکا ہے، میڈیا میں لوگوں کے نام اچھالے گئے ہیں یہ معاملہ ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ہے،عدالت کے منع کرنے کے باوجود ایف آئی اے نے میرے موکل آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور قرار دے دیا ہے، یہ سارا عمل پری پول دھاندلی کے مترادف ہے,چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پاکستان کی روایت ہے ہارنے والا الزام لگاتا ہے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ تحقیقات کو روک دیا جائے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے موکل ایف آئی اے کی انکوائری میں پیش ہو کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں, اگر وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو میں بشیرمیمن,ایف آئی اے اور نیب کیخلاف مقدمہ درج کرادوں گا۔

تازہ ترین