• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روشنی . . .

محمّد علی کھوکھر،شہدادپور

اللہ بخش تقریباً دس سال قبل ایک دُور دراز علاقے میں واقع، سرکاری اسکول میں بطور ٹیچر تعینات ہوا تھا،پھر جب اُس کے اپنے گاؤں میں حکومت کی جانب سے پرائمری اسکول قائم ہوگیا، تو اس کا تبادلہ وہاں کردیا گیا۔وہ اس اسکول کا واحد ٹیچر تھا۔ ابتدا میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ بچّے باقاعدگی سے آتے، کلاسز اور امتحانات کا سلسلہ بھی اپنے شیڈول کے مطابق جاری تھا، لیکن پھر سیلاب نے سب کچھ تہس نہس کردیا۔ پورا گائوں کئی ہفتوں تک سیلابی پانی میں ڈوبا رہا، مال مویشی، فصلیں، اناج غرض کوئی شئے باقی نہ بچی۔ سیلابی پانی خشک ہونے کے بعد زندگی کا پہیہ تو چلنے لگا، مگر اسکول بند ہوگیا۔ ایسا نہیں تھاکہ اس کی عمارت کو کوئی نقصان پہنچا ہو یا غریب ہاریوں کے بچّوں نے پڑھنے سے انکار کردیا ہو، نہیں،بلکہ چار کمروں، برآمدے اور وسیع میدان پر مشتمل اسکول دراصل مقامی وڈیرے ،حاکم خان کے مال مویشیوں کے باڑے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا۔حالاں کہ اللہ بخش نے سختی سے منع کیا تھا کہ اسکول کو علم کی روشنی پھیلانے اور جہالت کے اندھیرے مٹانے کے لیے درس گاہ ہی رہنے دیا جائے، مگروڈیرا شاہی کے آگے، اُس کی ایک نہ چلی۔

اُس نے تو تحریری طور پر محکمۂ تعلیم کو آگاہ بھی کیا، مگر وڈیرے نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے اُس کی ساری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ وڈیرے نے اُسے اوطاق پر بلوا کراُس کی خُوب خبر لی، ’’اللہ بخش!گھربیٹھ کرصرف اپنی تن خواہ وصول کر اور اگر پڑھانے کا زیادہ ہی شوق ہے ناں، تو روز صُبح اسکول جا کر مال مویشیوں کو پڑھا لیا کر۔اور ہاں، تیرا بیٹا کیسا ہے، بخار کا زور ٹوٹا؟‘‘ ’’سائیں! بیٹا تو پہلے سے بہتر ہے، مگر اسکول…‘‘ اس سے پہلے کہ اللہ بخش کچھ اور کہتا، حاکم خان بول اُٹھا،’’بس، اب جا، دماغ پر زیادہ زور نہ دے۔ ایک ہی بیٹا ہے، اُسے دیکھ۔ ایسا نہ ہو کہ بخار کی گولی کی بجائے، بندوق کی گولی دینی پڑجائے۔سمجھ گیا ناں…؟‘‘اور وہ چُپ چاپ وہاں سے واپس چلا آیا۔

پورا ایک سال گزر گیا۔اسکول کی حالت دیکھ کر اللہ بخش کا دِل خون کے آنسو روتا تھا۔اُس کی تو ایک ہی دِلی تمنا تھی کہ جیسے تیسے بھی ہو، اسکول، بچّوں سےآباد ہو جائے۔ایک روزیہی سب سوچتا وہ وڈیرے کی اوطاق جا پہنچا۔ہمیشہ کی طرح آج بھی اوطاق پر کُھلی کچہری کا انعقاد تھا۔ گائوں کے لوگ اپنے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کے لیے اسی دربار نما اوطاق کا رُخ کیا کرتے تھے،جہاں وڈیرا بھی اپنے مخصوص انداز میں کرسی پر براجمان ایک کے بعد ایک مسئلے کا تصفیہ کیے جاتا۔وہ بہت دیر سے سَر جُھکائے اپنی باری کا منتظر تھا کہ اچانک ہی وڈیرے کی بھاری رعب دار آواز گونجی،’’اور ماسٹر صاحب! سُنائو کیسے مزاج ہیں؟آج اتنے عرصے بعد ہماری یاد کیسے آگئی، خیر تو ہے ناں، بابا…۔‘‘ اللہ بخش شکن آلود پیشانی کے ساتھ بولا،’’سائیں! آپ کو تو معلوم ہے، حکومت کی طرف سے سختی شروع ہو گئی ہے۔ بند اسکولوں کو کھلوایا جا رہا ہے۔ سوچ رہا ہوں، مَیں بھی اسکول کو پھر سے آباد کرلوں۔ غریب آدمی ہوں، ڈرتا ہوں کہ کہیں چھاپا نہ پڑ جائے اور میرے بچّے روکھی سوکھی سے بھی محروم نہ ہوجائیں۔‘‘ حاکم خان نے سُنا، تو زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے بولا، ’’ماسٹر! تم بھی بالکل سادے آدمی ہو۔ بھئی ایسے اعلانات تو ہوتے ہی رہتے ہیں، تم فکرنہ کرو۔ 

دیکھو میں بینک کا کروڑوں روپے کا مقروض ہوں۔ بینک کی جانب سے یاد دہانی کے نوٹس بھی آتے رہتے ہیں، مگر آج اتنا عرصہ ہو گیا ہے، کام ہی چل رہا ہے۔ اللہ نے چاہا، تو ایک دِن آئے گا، مَیں یہ سارا قرضہ بھی معاف کروا لوں گا۔‘‘’’لیکن سائیں آپ کی بات اور ہے۔ مَیں مسکین سا آدمی ہوں، میری کون سُنے گا۔‘‘ اللہ بخش نے خدشہ ظاہر کیا، تو حاکم خان نے قدرے بےزاری سے یہ کہہ کر کہ’’ارے ماسٹر صاحب! ہم بیٹھے ہیں ناں بابا، آپ جاؤ، اپنا کام کرو۔‘‘بات ہی ختم کردی۔ اللہ بخش اوطاق سے باہر آیا،تو اسکول کی طرف چل دیا۔ایک ہی سال میں نئی عمارت، خاصی بوسیدہ ہوچُکی تھی۔ ہر کمرے میں بھوسے اور کھاد کا ذخیرہ جمع تھا، جب کہ صحن میں بھیڑ، بکریاں اور بھینسیں اُس کا مُنہ چڑا رہی تھیں۔ اللہ بخش گائوں کے غریب بچّوں کے مستقبل کا سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا۔کبھی اسکول کے دَر و دیوار کو ہاتھ لگا کر اپنی آنکھوں پر رکھتا، تو کبھی کمروں سے اُسے بچّوں کے سبق پڑھنے کی آوازیں سُنائی دیتیں۔اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا کیا کرے کہ اسکول دوبارہ آباد ہوجائے۔بے بسی حد سے بڑھی، تو اللہ کے حضور رو رو کر دُعا کرنے لگا، اچانک ہی اُس کی نگاہ کونے میں پڑے اسکول کے گھنٹے پر پڑی۔ اور پھر یکا یک ہی اُس کی آنکھوں میں اُمید کے کئی چراغ جل اُٹھے۔

اگلے روز وہ پھر وڈیرے کی اوطاق میں تھا۔ حاکم خان کھانا کھا رہا تھا۔ ’’کیا ہوا اللہ بخش! پیسوں کی ضرورت ہے کیا؟آج تو تُو جتنے کہے گا، کھاتے میں لکھے بغیر دے دوں گا۔‘‘’’سائیں! پیسے نہیں چاہئیں۔‘‘’’پھر…‘‘ ’’بس مَیں نے ارادہ کر لیا ہے،اسکول کو پھر سے آباد کرنے کا۔ آپ کے بچّے بھی پڑھیں گے اور گائوں کے بھی۔‘‘ حاکم خان نے بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’تیرا دماغ ٹھیک ہے ماسٹر!بارش کا موسم ہے اور میرے پاس کھاد، بھوسا رکھنے کی کوئی متبادل جگہ نہیں۔ فصل تیار کھڑی ہے، ان ہاریوں، کمیوں کے بچّوں نے بھی تو یہی کام کرنا ہے۔پھر تجھے کیا آفت پڑی ہے، اسکول آباد کرنے کی۔ اور رہا تیری تن خواہ کا مسئلہ، تو وہ تجھے مل جائے گی۔اب جا یہاں سے،زیادہ دماغ نہ خراب کر۔‘‘اللہ بخش کو وڈیرے کے تیوروں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں کوئی بھی بات کرنا بےسود ہے۔سو واپسی کے لیے قدم بڑھا دئیے۔ 

اسی اثناء میں حاکم خان کے موبائل کی گھنٹی بجی، ’’سائیں! بہت بہت شکریہ۔آپ نے شہر کے سب سے اچھے اور مہنگے اسکول میں میرے بچّوں کا داخلہ کروا کر مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔‘‘یہ الفاظ اُس کے دماغ پر جیسے ہتھوڑا بن کر لگے۔اللہ بخش نے کہا تو کچھ نہیں، بس ایک طنز بَھری نگاہ وڈیرے پر ڈالی اور اس پختہ عزم کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل دیا کہ ’’اسکول بند ہے، تو کیا ہوا، وہ اپنے گھر کے چھوٹے سے آنگن سے علم کی روشنی پھیلائے گا۔ گائوں کے بچّے بچّے کو علم کے نور سے منوّر کرے گا، دِیے سے دیا جلائے گا اور اس ارضِ پاک کا جس قدر قرض اُتار سکے گا، ضرور اتارے گا۔‘‘اب اُس کے قدم اسکول کی عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے،جہاں سے اُسے اسکول کی گھنٹی اُٹھا کے اپنے گھر کے آنگن میں لگانی تھی۔

تازہ ترین
تازہ ترین