• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھر تو آخر اپنا ہے . . .

ڈاکٹر عزیزہ انجم، کراچی

بائیک اچانک خراب ہوگئی تھی۔ وہ سڑک کنارے دونوں بچّوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ اشعر بائیک چیک کررہا تھا۔ ’’سُنو! تم سامنے پارک میں بچّوں کے ساتھ بیٹھ جائو۔ یہاں کہاں کھڑی رہو گی؟ بائیک اسٹارٹ ہوجائے، تو بلاتا ہوں۔‘‘ اشعر کے کہنے پر وہ سڑک کے ساتھ ہی بنے پارک کی بینچ پر بیٹھ گئی۔ بچّے خوشی خوشی جُھولوں پر چلے گئے۔ رات کی ابتدا تھی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اُس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ پارک کے چاروں طرف خُوب صُورت مکان بنے تھے۔ یہ کوئی پوش علاقہ تھا، گھر جدید انداز کے تھے۔ ٹیرس، لان، پھول پودے، بالکونیاں، اسٹائلش کھڑکیاں، دروازے۔ ہر گھر ہی منفرد ڈیزائن کا تھا۔ اُسے اچھا لگ رہا تھا، گھروں کو دیکھنا۔ نہ جانے کیسے ایک خیال بجلی کی طرح ذہن میں آیا، ’’کیا میرا اپنا گھر نہیں ہوسکتا؟ بڑا نہ سہی، چھوٹا ہی سہی۔ جہاں میں سُکون سے اپنی مرضی سے رہوں۔ پھول، پودے لگائوں، اپنی پسند کا فرنیچر خریدوں، پردے لگائوں۔ کتنا اچھا لگے گا۔ بائیک اسٹارٹ ہوگئی اور خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ بچّے دوڑ کر بائیک پر آبیٹھے تھے۔

بائیک تیز رفتاری سے اُڑی جارہی تھی اور اتنی ہی تیزی سے اس کا دماغ سوچ رہا تھا۔ ’’گھر، اپنا گھر…‘‘ کیا یہ بالکل ممکن نہیں۔ بھائی نے بھی تو اپنا اپارٹمنٹ لے لیا۔ بھابھی کتنے فخر اور اطمینان سے رہتی ہیں۔ وہ بھائی کے ہاں دعوت میں گئی تھی۔ سب بہن، بھائی جمع تھے۔ بھابھی گردن ترچھی کیے صوفے پر بیٹھی تھیں۔ اُن کے چہرے پر سکون تھا، مُسکراہٹ تھی۔

رات گئے بستر پر لیٹی، تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ ’’اشعر! سُنیں‘‘۔ ’’بولو…!‘‘ ’’آپ نے وہ گھر دیکھے تھے، جہاں ہماری بائیک خراب ہوئی تھی؟‘‘ ’’ہاں دیکھے تھے، اکثر دیکھتا ہوں، وہاں سے گزرتے ہوئے۔‘‘ ’’ہم نہیں لے سکتے گھر…؟‘‘ ’’ہم کیسے لے سکتے ہیں، اس آمدنی میں بچّوں کو پڑھائیں یا گھر بنائیں۔‘‘ ’’اشعر! آج نہیں تو کل، یہ گھر تو وراثت میں تقسیم ہوجائے گا۔ تو کیا ہم ایک کمرے میں ساری زندگی گزاریں گے یا کسی کرائے کے گھر میں۔‘‘ سیما نے پریشانی کا اظہار کیا۔ ’’جب تک گزارہ ہورہا ہے، کریں گے، ورنہ کرائے پر چلے جائیں گے۔‘‘ اشعر کے لہجے میں کچھ بے بسی سی تھی۔ ’’نہیں اشعر! ہم اپنا گھر بنائیں گے۔‘‘ ’’کس طرح…؟‘‘ ’’آپ باہر چلے جائیں۔‘‘ ’’باہر…؟‘‘ اشعر حیران تھا۔ ’’رہ لو گی میرے بغیر…۔ ایک دِن تو رہا نہیں جاتا، امّاں کے یہاں سے واپس آجاتی ہو، میرے ساتھ۔‘‘ ’’رہ لوں گی، سب سہہ لوں گی، آپ کوشش کریں۔‘‘ وہ بڑی پُرعزم تھی۔

اور دس سال…اُس نے پورے دس سال کا ہجر کاٹا۔ اشعر دو یا چار مرتبہ آیا۔ اس دوران وہ پیسا، پیسا جوڑتی رہی اور پھر اُس نے بھی ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ بُک کروا لیا۔ اشعر کے بالوں میں سفیدی اُتر آئی تھی۔ اس کی صحت بھی اتنی اچھی نہیں رہی تھی، لیکن اپنے گھر کا سرور سب کچھ بھلائے دے رہا تھا۔ ساس کا گھر تو دیور کی شادی پر چھوڑنا پڑا، پھر کرائے کے گھر کے آٹھ سال۔ہر روز ایک اذّیت، ایک پریشانی۔ ایک ان جانا خوف، نہ جانے کب کیا ہوجائے، کب گھر خالی کرنا پڑے۔ ایک کیل ٹھونکنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مالک مکان اکثر آکر پورے گھر کا جائزہ لیتا۔ اُسے بہت کوفت ہوتی۔ اور پھر وہ بالآخر اپنے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوگئی۔ اشعر واپس آچکا تھا۔ وہ بے انتہا خوش تھی۔ کفایت شعاری ہی سے سہی، اُس نےاپنا گھر بنا، سجا لیا تھا۔ بچّے اپنے کمرے میں خوشی سے اِک اِک چیز دیکھتے۔ اُس نے اشعر کے کندھوں پر سَر رکھ کر سوچا، اپنے گھر کا سکون اور خوشی کتنی بڑی نعمت ہے۔

اُس کی نند، زرّیں اور اُس کا شوہر پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ دونوں ملازمت کے سلسلے میں کینیڈا میں رہتے تھے۔ اُس نے اُن کی دعوت کی تھی۔ کھانے کے بعد دنیا جہاں کے موضوعات پر بات ہوتے ہوتے سیاست پر آگئی اور پھر پاکستان کی غربت، مسائل اور سُست ترقی جیسا موضوع زیرِبحث آگیا۔ اُس کا نندوئی کہہ رہا تھا، ’’کیا ضرورت تھی، قائدِاعظم کو پاکستان بنانے کی؟ کیا مِلا اُنہیں پاکستان بنا کر۔‘‘ وہ چائے کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ اُسے تو لگا، جیسے پہاڑ اُس کے سَر پر آگرا ہو۔ ’’کیا مِلا…؟؟‘‘ اُس نے سوالیہ نظروں سے سب کی طرف دیکھا، ’’آپ لوگوں کو پتا ہے، اپنا گھر کیا ہوتا ہے، اپنی چھت کے نیچے کتنے سکون کی نیند آتی ہے۔ کتنے تحفّظ کا احساس ہوتا ہے۔ گھر میں کبھی چولھا نہیں جلتا، کبھی پانی نہیں آتا، مگر اپنا گھر، تو اپنا گھر ہوتا ہے۔ اچھا، بُرا وقت تو گزر ہی جاتا ہے۔ 

اشعر اُسے حیرت سے تَک رہا تھا اور وہ بولے جارہی تھی۔ ’’قائدِاعظم کی عظمت کا احساس تو مجھے اپنے گھر میں آکر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی صحت کی پروا نہیں کی، بیماری نہیں دیکھی، وہ خواب، جو شاید بہت سی آنکھوں میں واضح بھی نہیں تھا، انہوں نے اس کو تعبیر کی شکل دے دی۔ ہمیں آزادی کی نعمت دلوائی، اپنا گھر اور اپنی زمین دی۔ یہ بتائیں ہم نے کیا کیا، پاکستان کو ایک خوش حال، باوقار اور ترقی یافتہ مُلک بنانے کے لیے۔‘‘ اس کی آواز شدّتِ احساس سے بوجھل ہوگئی تھی۔ سب خاموش تھے، پھر اُس کی نند بولی، ’’سچ کہتی ہیں بھابھی آپ۔ مَیں تو جب بھی پاکستان آتی ہوں، یہاں کی ہوائیں، آسمان، زمین، ہر شئے ہی اپنی اپنی لگتی ہے۔ یوں لگتا ہے یہاں کا ذرّہ ذرّہ میرا استقبال کررہا ہے اور بس یہی گنگنائے جارہا ہے،؎’’موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے…گھر کی خاطر سو دُکھ جھیلیں، گھر تو آخر اپنا ہے‘‘۔

تازہ ترین
تازہ ترین