• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مہمان پرندوں کی منتظر ’’ہالیجی جھیل‘‘

نعیم میمن

تاحد نگاہ بہتا ہوا پانی، لہراتی سرسراتی تازہ ہوائیں، پیپل کے درختوں کی راحت بھری چھاؤں اور خوب صورت چہچہاتے پرندے یہاں کے ماحول میں ایسی دل کشی پیدا کر رہے تھے کہ دیکھنے والے کا دھیان کسی دوسری طرف جاہی نہیں سکتا۔یہ ذکر ہورہا ہے، ’’ہالیجی جھیل‘‘ کا،جوکراچی سے ٹھٹھہ جانے والی شاہراہ پر تقریباً 85 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ٹھٹھہ سے پہلے شمال کی جانب یہ جھیل اپنی نوعیت کی انمول جھیل ہے۔اگر آپ جھیل کی اصل خوب صورتی اور دل کشی دیکھنا چاہتے ہیں، تو یہاں علی الصباح پہنچیں، یہاں کے مناظر آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیں گے۔اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں زندگی اتنی تیز ہوگئی ہے ،کہ کسی کو کسی کا کچھ خیال ہی نہیں، وہاں اس قدر پُرسکون ماحول میں انسان ، اپنی تمام تر فکرات، پریشانیاں، مایوسیاں، ناکامیاں، غرض کہ زندگی کی تمام تر الجھنیں بھول جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس جھیل کی لمبائی 685 مربع میل ہےاور گہرائی اوسط 17 فیٹ تک ہے۔ اس جھیل میں کینجھر جھیل سے بھی پانی چھوڑا جاتا تھا، لیکن اب یہ سلسلہ بند کردیا گیا ہے70ء کی دَہائی میں اس جھیل سے کئی برسوں تک کراچی کو پانی بھی فراہم کیا جاتارہا۔

اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہجرت کرنے والے پرندوں کی پسندیدہ آماجگاہ تھی۔ 1972ء میں اس جھیل کو جنگلی حیات کی مکمل پناہ گاہ(سینکچوری) کا درجہ دیا گیا تھا۔70ء سے 80ء کی دہائی تک ہالیجی جھیل سندھ وائلڈ لائف بورڈ کےزیر ِ انتظام میں ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی تعداد لاکھوں میں ہوا کرتی تھی۔ اُس وقت بین الااقوامی ادارے کی ٹیم نے یہاں سروے کیا تھا، جس میںانہوں نےتقریباً 255 پرندوں کی اقسام یہاں سے دریافت کی ۔سروے کے بعد جھیل کو’’ پرندوں کی جنت‘‘ کا لقب بھی دیا گیا تھا۔ اسی طرح ہالیجی جھیل میں دلدلی مگرمچھوں کی بھی افزائش ہوتی تھی۔ 

2004ء میں مگرمچھوں کی تعدادتقریباً 100 تھی، لیکن حالیہ سروے میں محسوس ہو رہا ہے کہ ممکنہ طور پر یہاں صرف دو مگرمچھ ہی بچے ہیں ،جنہیں وائلڈ لائف والوں نے اِس جھیل سے منسوب مگرمچھوں کے قصے کو یادداشت کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ایک وقت تھا کہ ہالیجی جھیل کی سیر کے لیے آنے والے سیاح ، بہت محتاط طریقے سے یہاں کی سیر کرتے تھے، کیوں کہ انہیں ڈر ہوتا تھا کہ کہیں سے کوئی مگر مچھ نہ نکل کر آجائے،لیکن اب لوگ اتنے اطمینان سے جھیل میں مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں کہ جیسے یہاں مگرمچھوں کا وجود ہی نہ ہو ۔ ویسے یہ بات درست بھی ہے، کیوں کہ پوری جھیل گھومنے کے بعد بھی یہاں صرف دو مگرمچھ نظر آئے،وہ بھی جو پنجرے میں قید تھے۔آگے جا کرکچھ فاصلے پرایک جگہ کچھ ہرن اور چند پرندے بھی قیددکھائی دئیے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہالیجی جھیل تباہ حالی کا شکار ہے۔ 

وسائل کی کمی اورمقتدر حلقوں کی عدم توجہی کی وجہ سے جھیل اپنی رونقیں اور شناخت کھو بیٹھی ہے۔ کینجھر جھیل سے پانی کی بندش کے بعد ہالیجی جھیل میں پانی کی سطح دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے، جس کے باعث پانی گنداہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرنے والے پرندوں نے یہاں کا رخ کرنا کم کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گندے پانی کی وجہ سے مچھروں کی بہتات جھیل سے سیاحوں کو بھاگنے پر مجبور کردیتی ہے۔ اگرہالیجی جھیل کی طرف توجہ دی جائے، تو اِس کی رونقیں دوبارہ بحال ہو سکتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے جھیل اِس نہج کو پہنچی ہے۔

لبِ جھیل تین کشتیاں بھی نظر آئیں، جن کے ذریعے جھیل کی صفائی کا کام سر انجام دیا جاتا ہے، لیکن اتنی بڑی جھیل کی صفائی ستھرائی کے لیے صرف تین کشتیاں ناکافی ہیں۔ اب بھی یہاںسیاح تو آتے ہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہاں آنے والوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جو مچھلی کے شکار کے شوقین ہیں۔اگر ہالیجی جھیل پر توجہ دی جائے، تو یہ سیاحتی نکتہ نظر سے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین