• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

عمران خان کے گرد روز بروز توقعات کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ ووٹرز کی توقعات ان سے ہیں مگر اتنی نہیں جتنی پیدا کی جا رہی ہیں، مشروط حلف اٹھا کر وہ مشروط انداز میں توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کیسے کریں گے یہ گویا پرچہ آئوٹ آف کورس ہے، اور ایسے امتحان میں طالب علم اکثر فیل ہو جاتے ہیں، اس سے پہلے بھی بڑے بڑے وعدے وعید ہوتے رہے ہیں مگر کبھی توقعات کا ایسا طوفان دیکھنے میں نہیں آیا، بہرحال سائنسی ترقی کا دور ہے مصنوعی بارش بھی برسائی جا سکتی ہے، اور ایک اصطلاح یہ بھی چل نکلی ہے کہ اگر کوئی مثالی انداز اختیار کرے تو اسے کاسمیٹک کہہ کر دلہن بھی بنایا جا سکتا ہے، حالانکہ دلہن کا اصل رول تو میک اپ اترنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے کہ اس کی گھر، گھر ہستی کیسی ہے، بڑی بیقراری ہے کہ جلد خان صاحب کی جانب سے کچھ دیکھنے کو ملے مگر شاید ان کا کچھ دکھانا بھی مشروط نظر آتا ہے، کیا یہ 2018کے انتخابات کے خلاف احتجاج واقعی انتخابات کے خلاف ہے؟ ہماری طرح بہت سے لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اب وہ کچھ اچھا اچھا دیکھیں گے، کاریگر کے اوزار غائب ہیں کیا وہ کچھ کر پائے گا جو دیکھ کے ہم خوش ہوں، خیبر پختونخوا حکومت تو دسمبر ٹیسٹ تھی سالانہ امتحان تو اب ہو گا، کپتان ہی کپتان ہے اناڑی ٹیم یا بھان متی کنبہ میچ جیت پائے گا؟ نگران ممتحین سبھی ایک دم سخت امیدوار کتنے نمبر لے پائے گا یا خالی پرچہ دے آئے گا۔ بہت کچھ کہا بھی جا سکتا ہے نہیں بھی، تاہم امید پر دنیا قائم ہو نہ ہو ہم تو 70برسوں سے قائم ہیں، ہم ڈھیٹ ہیں یا حکمران، کچھ بھی کہیں مستقل مزاجی ہماری، ان کی دیکھا چاہئے نظام کی تبدیلی، ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست اور توقعات کا چارج کیا گیا ہجوم، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے مگر حلف کے بعد۔


٭٭٭٭


فراغت قبل از فراغت


نگران حکومت سے ہمیں یاد آیا کہ سات بہنوں کے اکلوتے بھائی کو ماں نے کہا بہنوں کے ساتھ جائو تاکہ وہ کھیتوں سے چارا کاٹ لائیں، وہ گیا اور ’’بنے‘‘ پر اطمینان سے بیٹھ گیا، جب بہنیں چارہ کاٹ چکیں اور بھائی سے کہا کہ چارے کی گٹھڑی سر پر رکھنے میں مدد کرو تو بھائی جان نے کہا ماں نے صرف نگرانی کا کہا تھا ابھی تو رات باقی ہے ابھی تو کام باقی ہے اور ابھی تو حلف اٹھانا باقی ہے، مگر نگران پہلے ہی فارغ فارغ دکھائی دیتے ہیں، لوڈ شیڈنگ ہو، کہیں آگ لگ جائے، یا نالہ لئی میں سیلاب آ کر گھروں میں داخل ہو جائے نگران حکمران اپنے دفاتر میں اپنی خواب گاہوں میں آسودہ ہیں، لوگ، یعنی جن کا پون صدی سے کوئی والی وارث نہیں، اپنی مدد آپ کے تحت غضب کی رات گزار چلے، نگرانوں میں سے یا ان کا کوئی بندہ مدد کو نہ آیا، کیا ان کو بھی والدہ صاحبہ نے صرف نگرانی کا کہا تھا کام سے روکا تھا؟ یقین آ گیا کہ جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے، اکثر ہمارے معاشرے میں تاخیر کا جواز یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ کام کرنا ابھی قبل از وقت ہے، مگر یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی فراغت قبل از فراغت پا لے، فارغ مہربانوں کی فوج ظفر موج نوے دن کی فراغت کے بعد پھر اپنی سابقہ فراغت پر ہی جائے گی، پھر نئے وزیراعظم حلف اٹھائیں گے اور اقتدار منتقل ہو گا۔


٭٭٭٭


میرا بلبل سو رہا ہے


چیف جسٹس:تین بار فون کیا، جواب نہیں ملا، چیف الیکشن کمشنر سو رہے تھے۔ آر ٹی ایس بیٹھ گیا، الیکشن اچھا خاصا چل رہا تھا، کمیشن نے مہربانی کر دی، اب اس مہربانی کی تحقیقات ہونا چاہئے معلوم ہو کہ انتخابات متنازع کیوں ہوئے، ہمارا آٹا کیوں عین موقع پر ڈھیلا پڑ جاتا ہے؟ چیف جسٹس غنیمت ہیں، وہ عدل کو پانی دینے کا بھی بندوبست کر رہے ہیں۔ آر ٹی ایس کیوں بیٹھا اس کا اصل جواب تو قوم کو ملنا چاہئے، ہم باقیات ماضی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، ماضی سے سبق تو سیکھا جا سکتا ہے اس پر مستقبل کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، کیونکہ گزری ہوئی چیز تو کالعدم ہوتی ہے، اور عدم پر اینٹ نہیں رکھی جا سکتی کہ کوئی نئی عمارت کھڑی ہو، پاکستان بن گیا، بن کر دو لخت ہو گیا، یا کر دیا گیا، اب آدھا جو رہ گیا ہے اسے 70سالہ حکمرانی نے اپنے مطابق کر لیا ہے، اس وقت ہمارے ہاں کئی پیشے ہیں جن میں نفع کے اعتبار سے سیاست پہلے نمبر پر ہے، ہر سیاستدان اس لئے اسے اختیار کرتا ہے کہ اس میں مراعات سفارشات، اوپر کی کمائیاں، پروٹوکول، بنگلے، نوکر چاکر اور اس کے علاوہ اتنا کچھ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی محرومیوں سے بھی حجم میں بڑا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے فون کیا، کسی نے تو کہا ہو گا میرا بلبل سو رہا ہے شور و غل نہ مچا، بہرحال الیکشن ہو گئے، حلقے کھل گئے، کبھی 4 نہیں کھلے تھے اب بیشمار کھل گئے، یہ ملک کھلتا ہی رہے گا یا کبھی کوئی اس کی رفوگری بھی کرے گا، بہرحال پنجرہ بلبل اور دیگر سب بدل کر اب ایک عدد الیکشن کمیشن بنایا جائے جو برموقع نہ بیٹھے۔


٭٭٭٭


سانپ کا ڈسا


....Oبرکی:دیرینہ دشمنی پر 2بھائی 3کزن قتل، ورثاء نے ملزموں کے گھر جلا دیئے، لاشیں پنجاب اسمبلی کی عمارت کے سامنے رکھ کر احتجاج۔


اگر یہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو اس طرح کے واقعات نہ ہوتے، لوگوں کو خوف ہوتا کہ قانون ہاتھ میں لیا تو ہاتھ نہیں رہے گا، دیرینہ جہالت کی پیداوار دیرینہ دشمنی ہی ہوتی ہے۔


....Oترجمان الیکشن کمیشن:فارم 45کا نہ ملنا دھاندلی نہیں یہ واضح ہونا چاہئے۔


پھر دھاندلی کیا ہے؟ اور وزیراعظم بننے میں اب رکاوٹ کیا ہے؟


....O نیب نے علیم خان کو 10اگست کو پھر طلب کر لیا۔


نیب زدگان میں کہیں اتنا اضافہ نہ ہو جائے کہ۔۔


....Oپاکستان کے خفیہ غیر ملکی اثاثوں کی مالیت 43کھرب روپے،


کیا یہ خزانے ظاہر ہو کر واپس نہیں لائے جا سکتے۔


....Oہمارے ہاں قانون ہے اطلاق بھی ہے، مگر نتیجہ ہر قانونی تفتیش و تحقیق اور فیصلے کا یہ کہ ’’تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود‘‘ (جب تک زہر کا توڑ لایا جائے گا سانپ کا ڈسا مر چکا ہو گا)


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین