راولپنڈی(راحت منیر/اپنے رپورٹر سے)گزشتہ روز کی بارش سے شہر بھر کے نشیبی علاقوں کے بارشی پانی میں ڈوبنے کی روایت برقرار رہی گھروں میں کئی کئی فٹ پانی انتظامیہ کے دعوئوں کی نفی کرتا رہا۔ شہریوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نالوں پر تجاوزات میں ملوث افراد اور ذمہ دار حکام کیخلاف ازخود نوٹس لیں۔ راولپنڈی کے مستقل کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے علاوہ موجودہ نگران کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے بھی چارج لے کر سب سے پہلے نالہ لئی اور نالوں کی صورتحال کی طرف توجہ دی تھی لیکن نتیجہ پھر بھی عوام کے پانی میں ڈوبنے کی صورت میں نکلا ہے۔ کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ سیف انجم اور ڈپٹی کمشنر عمر جہانگیر نے نالہ لئی اور نالوں کے جائزہ کے بعد اسی طرح کی ملتی جلتی ہدایات جار ی کی تھیں جس طرح کی ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔نشیبی علاقوں کے مکین سیاسی سرپرستی میں تجاوزات کرنے والے مافیا اور انتظامیہ کو کوستے رہے۔ہر سال مون سون کے دوران راولپنڈی کے نالوں اور نالہ لئی کے کنارے آباد علاقوں کے مکین راتیں جاگ کر گزارتے ہیں۔کیونکہ ہر مون سون ان کی خوشیوں کو گرہن لگا جاتا ہے۔جس پر ان کو ہر سال وعدے اور دلاسے دیئے جاتے ہیں جو ہرسال مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی طغیانی میں بہہ جاتے ہیں۔جبکہ نشیبی علاقوں کی صورتحال آج بھی جوں کی توں ہے۔تجاوزات کی آڑ میں نہ تو نالوں پر قبضے رکے ہیں نہ ہی ان کو روکنے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھایا گیا ہے۔ نالہ لئی کے ساتھ ساتھ شہر کے گیارہ بڑے نالوں پر تجاوزات کے باعث پانی کی گزرگاہیں تنگ ہوچکی ہیں۔اور معمول کی بارش بھی طغیانی کی شکل اختیار کرکے شہریوں کا نقصان کردیتی ہے۔ جبکہ منگل کو بارش بھی غیر معمولی تھی۔جس سے توقع سے بڑھ کر نشیبی علاقوں کو ڈبویا۔لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس عبادالرحمن لودھی کے حکم پر راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے نالوں اور نالہ لئی کے ریونیو سروے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینے کی نوید عدالت عالیہ میں سنائی تھی۔لیکن عملاًان کمیٹیوں کا کسی جگہ کوئی وجود نظر نہیں آیا۔اور تو اور سابق ڈی سی راولپنڈی طلعت محمود گوندل جو راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹر بھی رہ چکے ہیں ان کو نالوں اور نالہ لئی کے حوالے سے ہر قسم کی معلومات کا ادراک تھا۔انہوں نے بھی نالوں بالخصوص جاوید کالونی نالہ کے دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لینے کا وعدہ کیا تھا لیکن عملدرآمد نہ کراسکے۔سابق چیف سیکرٹری پنجاب اور سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن زاہد سعید نے بھی نالوں بالخصوص آریہ محلہ والے نالے پر تجاوزات کا نوٹس لیا تھالیکن نتیجہ صفر نکلا۔سابق ڈی سی او راولپنڈی ثاقب ظفر نے 4اپریل2013ء کو نالوں اور نالہ لئی اور نالوں پر پر غیرقانونی تعمیرات روکنے کیلئے باقاعدہ تحریری احکامات جاری کئے جن کا آج تک کوئی نام ونشان نظر نہیں آیا۔حال ہی میں تبدیل ہونے والے کمشنر راولپنڈی ندیم اسلم چوہدری نے بھی دو فروری2018کو حکم جاری کیا تھا جس کے تحت آبی گزرگاہوں کے کناروں پر نہ صرف تعمیرات پر پابندی لگائی گئی بلکہ ان پر تجاوزات کو ختم بھی کرانا تھا۔لیکن وہ بھی صرف تحریری حکم ہی رہا۔عملی شکل اختیار نہ کرسکا۔نگران دور میں تعینات ہونے والے موجودہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن ریٹائرڈ سیف انجم اور ڈپٹی کمشنر عمر جہانگیر نے چارج لے کرنالہ لئی اور راولپنڈی و کینٹ کے نالوں کی صورتحال کے حوالے سے جو ہدایات جاری کی تھیں وہ بھی کم و بیش وہی تھیں جو ماضی میں جاری ہوتی رہیں۔جو اس بات کا ثبوت تھا کہ راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنی،واسا ،میونسپل کارپوریشن،کنٹونمنٹ بورڈ حکام نئے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر راولپنڈی ڈویژن کو ماضی کی طرح چکر دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ کمشنر راولپنڈی ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے نالہ لئی اور نالوں کے ریونیو سروے کے ساتھ ساتھ صفائی اور تجاوزات ہٹانے کی ہدایات کے ساتھ سروے کیلئے ڈورون کے بھی استعمال کی نوید سنائی تھی۔جبکہ نقشے اور چوڑائی وغیرہ کی نشاندہی بھی ہونی تھی۔لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا اور منگل کو ایک بار پھر موسلا دھار بارش سے نالہ لئی اور نالوں میں طغیانی آگئی جس کے باعث نشیبی علاقے پھر پانی میں ڈوب گئے اور پانی گھروں میں داخل ہونے سے شہریوں کا بھاری نقصان ہوا ہے ۔شہر بھر کے نالے ابلنے سے گلی محلوں اور گھروں میں پانی کھڑا ہوگیا ۔جوتالاب اور ندی کا منظر پیش کررہے تھے۔نالوں میں ہونے والی طغیانی نے نظام زندگی معطل کرکے رکھ دیا۔جس کے باعث لوگوں کے پانی میں پھنس جانے کے باعث سرکاری پرائیویٹ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں حاضری بھی کم رہی۔آریہ محلہ مسلم کالونی میں چار سے چھ فٹ تک پانی آیا جو گھروں میں بھی داخل ہوا۔نالہ لئی میں طغیانی کے باعث شہر بھر کے نالے رک گئے تھے اور پانی نشیبی علاقوں میں داخل ہوگیا تھا۔کری روڈ،امر پورہ،کرتار پورے،صادق آباد،مسلم کالونی۔ڈھوک کھبہ،ڈھوک الہی بخش،جامع مسجد روڈ،ڈھوک حسو،ڈھوک چراغ دین،چاہ سلطان سمیت دیگر نشیبی علاقے بارشی پانی میں ڈوبے رہے۔شکریال میں لوگ گھروں میں بارشی پانی کے باعث محصور ہوگئے۔ناز سینما،نیو امرپورہ،ٹرانسفارمر چوک کے نشیبی علاقوں میں چار سے پانچ فٹ پانی گھروں میں داخل ہوا۔بوہڑ بازار میں پانی دکانوں میں داخل ہوگیا جس سےتاجروں کا کروڑوں روپے کا سامان تباہ ہوگیا ۔کمیٹی چوک انڈر پاس بھی بارشی پانی سے بھر گیا تھا۔مری روڈ،راول روڈ،ٹیپو روڈ،صادق آباد،جامع مسجد روڈ،ٹرانزٹ کیمپ روڈ،رتہ امرال،رحیم آباد،کوہاٹی بازار سمیت دیگر علاقوں کی سڑکوں پر پانی چلنے سے ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔جبکہ دوسری طرف تمام ادارے اپنی اپنی بہترین کارکردگی کا بھی دعویٰ کرتے رہے۔اور عوام بے چارے پانی میں گھرے رہے۔ذرائع کے مطابق گزشتہ حکومت کے دور میں خیابان سرسید،کٹاریاں ،پنڈورہ ،مسلم کالونی،جاوید کالونی کے علاقوں میں کچھ عرصہ سے نالوں کی دیواریں بنائی گئی ہیں۔جس سے نہ صرف نالوں کا پاٹ کم ہوگیا ہے بلکہ جو اضافی جگہ نالوں سے نکالی گئی ہے اس پر قبضے ہوگئے ۔اس غفلت اور لاپرواہی میں صرف انتظامیہ اکیلی ذمہ دار نہیں بلکہ راولپنڈی کے کرتا دھرتا بھی برابر کے شریک ہیں۔جن کے سیاسی سرپرست ان سے کوئی بازپرس نہیں کرتے تھے۔راولپنڈی میں تباہی پھیلانے والا سب سے بڑا نالہ آریہ محلہ کا ہے۔ تجاوزات وغیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے سب سے بری صورتحال بھی اسی نالہ کی ہے۔یہ نالہ سروس روڈ سے بننا شروع ہوتا ہے جو ڈھوک پراچہ ،رشید کالونی،کری روڈ،خرم کالونی،ائرپورٹ کے رن وے سے نکل کرراول روڈ کو کراس کرکے،محلہ محمودہ شاہ،طہماسب آباد،میڈیکل کالج کالونی،محلہ چوہدری فیروز،ڈھوک کھبہ پلی،ڈھوک الٰہی بخش،آریہ محلہ،مسلم کالونی،جاوید کالونی سے ہوکر مری روڈ کو کراس کرکے نالہ لئی میں گر جاتا ہے۔اسی طرح ایک اور نالہ نیشنل مارکیٹ سے چلنے والا نالہ جو اصغر مال سکیم،حیات ولی کلینک،محلہ فیروز پورہ،ہری پورہ،سنگت پورہ،کوہاٹی بازارکے قریب سے مری روڈ کو کراس کرتا ہے ڈبوشاہ روڈ،امرپورہ ،مکھا سنگھ سٹریٹ،جمعہ بازار سے نکل کر ڈھوک الہی بخش میں آریہ محلہ والے نالے میں ملتا ہے۔اور وہاں سے پھر الگ ہوکر آگے جاکر ڈھوک چراغ دین کے پاس سے نالہ لئی میں گرجاتا ہے۔کلاں بازار سے شروع ہونے والا نالہ موچی بازار،راجہ بازار،لال حویلی،کیمسٹ روڈ،کرنل مقبول امام باڑہ،نیا محلہ سے نکل کر لیاقت روڈ کو کراس کرکےنشاط سنیما کے پاس سے نالہ لئی میں گر جاتا ہے۔ان نالوں کے علاوہ بھی دوسرے نالے ہیں جو مختلف علاقوں سے نکل کر نالہ لئی میں گرتے ہیں جن میں رتہ امرال والی طرف سے دو نالے،پیر ودھائی ،بنگش کالونی خیابان سرسید،آئی جے پی روڈ،محلہ راجہ سلطان کے نالے شامل ہیں۔تجاوزات اور غیر قانونی قبضوں کے نتیجے میں راولپنڈی کے یہ بڑے نالے سکڑ کر نالیاں بن چکے ہیں۔اسی قسم کا حال نیا محلہ سے نکل کر نشاط سینما کے قریب سے نالہ لئی میں گرنے والے نالے کا ہے۔لیاقت روڈ پر اس نالے پر سابقہ ادوار میں پارکنگ کے منصوبہ کے تحت تعمیرات شروع کرائی گئی تھیں۔جس کے لئے پبلک لیٹرین اور نالہ کی دیواریں بھی توڑی گئیں۔بعدازاں منصوبہ ختم کرنے پرادھورا رہ گیا۔جس کے باعث اس جگہ پر اب ایک کوڑا دان(فلتھ ڈپو) بن چکا ہے۔جس نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ہر سال صفائی کے نام پر نالہ لئی اور راولپنڈی کے بڑے11نالوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔جس میں گند اور گارا(سلٹ) نکال کر کناروں پر ہی ڈال دیا جاتا ہے۔جو پھر آہستہ آہستہ واپس نالہ لئی اور نالوں میں چلا جاتا ہے۔اور اگلے سال کیلئے سرکاری اداروں کو کام مل جاتا ہے۔جس کے بعدتھوڑی یا زیادہ بارش کے بعدنالے ابل پڑتے ہیں۔بارشی پانی گھروں میں داخل ہوکر لوگوں کی محنت کی کمائی کا بیڑہ غرق کردیتا ہے۔بلکہ ان کی جانوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔لیکن انتظامیہ اور غریبوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کو اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔اور ہر سال نشیبی علاقوں کے مکین مون سون میں اجڑتے ہیں۔اس سالانہ نقصان میں عوام بھی برابر کے شریک ہیں۔جھنوں نے اپنا کوڑا کرکٹ نالوں میں پھیکنے کو وطیرہ بنا رکھا ہے۔نالوں کے کناروں پر آباد لوگ روزانہ اپنے گھر کا کوڑا شاپروں میں بند کرکے نالے میں پھینک کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔