• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی سے ہمارے دوست اکثر کہتے ہیں کہ آپ پنجاب والوں کے خوب مزے ہیں جب ذرا موسم گرم ہوا آپ پہاڑوں تک ہو آتے ہیں اور مری جانا تو گویا ایسے ہے جیسے مارکیٹ جا کر گھر کا سودا سلف لے کر واپس ہو لینا۔ہم جواب میں صرف مسکرا لیتے ہیں کیونکہ بات سولہ آنے درست ہوتی ہے۔

ایک ماہ سے لاہور شدید حبس کے زیر اثر تھا۔ پانچ سالوں میں لاہوریوں کو ویسے ہی لوڈ شیڈنگ کی عادت نہیں رہی لیکن نگراں حکومت کے دور میں ہماری طبیعت کو کافی حد تک صاف کر دیا گیا ہے۔ تخت لاہور کی باتیں اب ماضی کی داستان بن گئی ہیں۔ آنے والے دنوں میں لاہوریے مزید تبدیلیوں کے لیے تیار ہیں۔

ایک طرف طویل لوڈ شیڈنگ دوسری طرف شدید حبس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ہم ابھی دو ماہ پہلے ہی چترال اور کالاش کی سیر سے ہو کر آئے تھے ابھی دوبارہ کسی مہم کا ارادہ نہیں تھا کہ محترم دوست سلمان کا فون آیا کہ رات کو ملکہ کوہسار مری کے لیے نکلنا ہے کیا آپ تیار ہیں ہم نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ ۔

لاہور اور اسلام آباد کے باسیوں کے لیے مری قریب ترین سرد پہاڑی مقام ہے جہاں شدید گرمی میں بھی موسم معتدل رہتا ہے۔مری کو پہاڑوں کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔مری میری پہلی محبت ہے۔ جولائی 1986 میں جب اسکاؤٹس کے ہمراہ گھوڑا گلی گیا اور دس دن مری قیام کیا ۔وہ دن آج بھی میری یاداشت میں محفوظ ہیں کہتے ہیں نا کہ محبت ہمیشہ پہلی نظر میں ہی ہوتی ہے۔

تیر برس کے نوعمر لڑکے نے جب سبزے میں لپٹے پہاڑوں کو پہلی نظر دیکھا تھا اور ٹھنڈے بادلوں نے پہلی مرتبہ جب اس کے رخساروں کو چھوا وہ لمس آج تک محسوس ہوتا ہے اور روح کو گہرائیوں تک سرشار کر دیتا ہے۔ملکہ کوہسار سے میری محبت کا وہ لمحہ آغاز تھا ۔

پاکستان میں ناران، کاغان، سیف الملوک، چترال، کالاش، وادی نیلم،گلگت بلتستان سمیت کوئی جگہ مجھے وہ سکون راحت اور محبت نہیں دے سکی جو ملکہ کوہسار نے مجھے دی، بقول فراز:

ہم تو محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز۔۔۔۔بس ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا

مری کا مال بے حد تفریحی مقام ہے۔ وہاں جی پی او جا کر تصویر بنانا ایک یادگار لمحہ ہوتا ہے۔1986 کے مال اور آج کے ان مقامات میں بہت فرق ہے ۔آج گھر والے ویڈیو کال پر میرے ساتھ مری کی سیر کر رہے تھے جبکہ اس وقت انگریز کے زمانے کے بنے تار گھر میں بیٹھ کر لاہور کے لیے ٹرنک کال بک کروا کر گھنٹہ بھر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔

وہ بھی کیا دور تھا۔۔مگر سچ کہوں وہ آج کے ڈیجیٹل دور سے بہت بہتر تھا۔سکون تھا، تنہائی تھی، کتابیں تھیں، محبت تھی ،خلوص تھا لیکن اب مری کے مال پر جس قسم کے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں اپنی دم توڑتی تہذیب نوحہ کرتی محسوس ہوتی ہے۔

تین دنوں میں ہم دوست مری، پتریاٹہ، نتھیا گلی، ایوبیہ، خانس پور بھی گئےاور ٹھنڈے و رومانوی موسم سے خوب محظوظ ہوئے۔یہ ایک ناسٹلجک ٹور تھا جس میں ان تمام راستوں پر سے گزرتے ہوئے جب مجھے پہلی محبت کا پہلا احساس ہوا تھا ۔۔جب میرے دل میں ملکہ کوہسار کے سرد موسم میں محبت کا اولین گداز گرم آنسو بن کر ٹپکا تھا۔اس وقت تو اپنی اس کیفیت کو نہ سمجھ سکا تھا بس حیرانی کا سمندر تھا جس میں غوطہ زن تھا ۔۔

آج وہ سنہری یادیں میرے ساتھ ملکہ کوہسار کی جانی انجانی راہوں میں میرے ساتھ سرگوشیاں کر رہی تھیں اور میرے ساتھ میرے دوست میری ان کیفیات سے بے خبر زندگی سے بھر پور قہقہوں سے ماحول کو گرما رہے تھے۔

تازہ ترین