تحریر… مفتاح اسماعیل (سابق وفاقی وزیز خزانہ)
عمران خان کے وزیراعظم ہائوس میں نہ رہنے یا ان کے کم سے کم سیکیورٹی پروٹوکول لینے کےفیصلےکے حوالے سے بہت کچھ لکھاجاچکاہے۔ میرے نزدیک کوئی بھی بطورویزراعظم اِس طرح نمودونمائش سےدورنہیں رہ سکتا جس طرح ہمارے گزشتہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی رہے۔ وزیراعظم عباسی کبھی بھی وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہےبلکہ اسلام آباد میں موجود اپنے گھرمیں رہنے کوپسند کیا۔ جب کبھی شام کو وہ اپنے دوستوں کےگھردعوت پر جایا کرتے تھے تو ان کےپیچھےگاڑیوں کےلمبےقافلے نہیں ہوتےتھے۔ صرف تین گاڑیاں ہوا کرتی تھیں اور ان کیلئے ٹریفک نہیں رکتی تھی۔ لیکن جب وہ پہلے سے طےشدہ راستہ اختیار کرتے تھےجیساکہ ایئرپورٹ سے واپس آتے ہوئے تو ٹریفک رکتی تھی اور کئی گاڑیاں(7سے8) ان کے قافلے میں ہوتی تھیں۔ کیونکہ وزیراعظم ہائوس سے(ہیلی پیڈپر)ائیرپورٹ تک پروازکرنا کافی مہنگا ہے، وزیراعظم عباسی سڑک کےذریعے جایاکرتے تھے۔ لیکن کیونکہ ٹریفک جام سے لوگوں کومشکلات ہوتی ہیں لہذا مصروف اوقات کےدوران وہ ہیلی کاپٹرسےجایاکرتے تھے۔ زیادہ ترایئرپورٹ یا اسلام آباد میں کہیں بھی ہیلی کاپٹریاگاڑی میں جانےکافیصلہ ان کاسیکیورٹی سٹاف کیاکرتاتھا۔ میری بیوی اور مجھے کئی بار وزیراعظم کےساتھ لندن سفرکرنےکاموقع ملا جہاں لندن سکول آف اکنامکس کی جانب سے منعقدہ پاکستان کانفرنس میں انھوں نے اہم تقریر کی تھی۔ وہاں میں نے بھی لیکچردیاتھااورآکسفورڈ میں بھی دیاتھا۔ ہم نےوزیراعظم کےساتھ دیگر مسافروں سے بھی پہلےپی آئی اےمیں سوار ہوئے تھے۔ وزیراعظم نے مجھےکہاکہ چیف سیکیورٹی پروٹوکول سےکہو کہ کوئی بھی مجھے لینے نہ آئے۔ بے شک میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور ہمارے ہائی کمشنراور مشن کے دیگر چند لوگ ہمیں لینے آئے تھے۔ وزیراعظم کے اصرار پرہم پلہام ہوٹل میں ٹھیرے جو لندن کے بہترین ہوٹلوں میں شمار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہوٹل پہنچے کے بعد وزیراعظم نے مجھے کہاکہ ہائی کمیشن کی گاڑیوں کو جانے دیاجائےجو ہمارے لیےباہر کھڑی تھیں۔ میں نے وزیراعظم کی گاڑی کو جانےدیااور دیگر ڈرائیوروں سے انتظارکرنے کوکہاتاکہ مجھے اور میری بیوی کوقریبی ریسٹورنٹ پر چھوڑدیں جہاں ہم نے دوستوں سے ملناتھا۔ (ہم نےایک واپسی کیلئے ایک ٹیکسی لی)۔ ہوٹل میں چند ملاقاتوں کے بعد وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری نے مجھے کہاکہ میں اپنے رشتےداروں سے ملنے جاسکتاہوں کیونکہ اب کوئی سرکاری میٹنگ نہیں تھی۔ بے شک جب آپ ہوٹل سے باہر قدم رکھتے ہیں تو وہاں پاکستانی میڈیا کے چند لوگ ہوتے ہیں جو وزیراعظم سے بات کرنے کےمنتظرہوتے ہیں۔ وزیراعظم ہمیشہ کنجوسی کرنے اورسستے ہوٹلوں میں ٹھہرنے پرمیرا مذاق اڑایا کرتے تھے اور میں انھیں جواب میں بتایا کرتاتھا کہ میں کم ازکم ایک میمن ہوں لیکن اس میں کنجوس ہونے کاکیاتعلق ہے؟ لیکن وہ نہ صرف اپنے لیے کنجوس تھے بلکہ سستے ہوٹلوں اورہمیشہ نمودونمائش سےدور رہتے تھےاورپاکستانی لوگوں کے پیسوں کیلئے بھی سخت تھے۔ وزیراعظم عباسی کے امریکا دورے اورہماری فوج کےعلم میں لائے بغیرنائب امریکی صدرکےساتھ خفیہ ملاقات پربہت کچھ کہاگیا۔ اور واپسی پر کپڑے اتارے جانے پر بھی بہت کچھ کہاگیا۔ سوشل میڈیاپرآنےوالی ان کہانیوں میں کوئی سچائی نہیں۔ وزیراعظم عباسی امریکا میں اپنی بہت کوملنے گئے تھے جو امریکامیں رہتی ہیں اور ان کی سرجری ہوناتھی۔ وہاں پر وہ نائب صدرمائیک پینس سے ملنا چاہتے تھے۔ انھوں نے مجھے خاموشی سےاس ملاقات کابندوبست کرانے کو کہا۔ صرف دو تاتین شہری اور دویاتین دیگر افراد پاکستان میں اس ملاقات سےقبل اس سے باخبر تھے اورپاکستان ایمبسی سے صرف ایک شخص ان کے ساتھ تھا۔ یہ خیال کہ انھوں نےاعلیٰ فوجی افسران کےعلم میں لائے بغیرنائب امریکی صدرمائیک پینس سے ملاقات کی تھی، یہ غلط ہے۔ عام طورپرجب پاکستانی اہلکار امریکاسےآتے ہیں تو ہمارے ایمبیسی کے پروٹوکول اہلکارانھیں خود دروازے تک چھوڑنے آتے ہیں اگر ان کے پاس انٹری پاس ہوں یا ٹی ایس اے ایجنٹ کو بتاتے ہیں جو اہلکاروں کو گیٹ تک چیک ان کائونٹر تک چھوڑتے ہیں۔ یہ ایک سٹینڈرڈ طریقہ کار ہے، وہ اتنا ہی کرتے ہیں جتنا ہم انھیں کہتے ہیں۔ لیکن وزیراعظم عباسی ایسے پروٹوکول سے بچتے ہیں اور انھوں نے فیصلہ کیاکہ معمول کی سیکیورٹی سے گزرنے کافیصلہ کیا جہاں انھوں نے اپنی ویسٹ بیلٹ اتاری جس پر ایک دھاتی بکسوا لگاتھاباقی تمام مسافر بھی یہ کرتے ہیں۔ کپڑے اترواکران کی تلاشی لینا یہ جھوٹ نہیں ہے لیکن اس جھوٹ کے پیچھےوجہ ہے۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر اپنی سادگی کیلئے مشہورتھے۔ لیکن ان کے نقاد کہاکرتے تھے کہ صدرکارٹر اپنے سادگی کی نمائش کرتے ہیں۔ یہ دیگر پاکستانی رہنمائوں کیلئے بھی کہاجاسکتاہے۔ لیکن عباسی کیلئے نہیں۔ بطوروزیراعظم انھوں نے سادہ زندگی گزاری لیکن اس کی نمائش نہیں کی۔ ان کی ایمانداری بھی ایسی ہی تھی۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جن کی ایمانداری پر سوال نہیں اٹھایاجاسکتا لیکن اس نے کبھی اس کی نمائش نہیں کی۔ غالباً یہ کم سے کم ہے جو ہم اپنی قوم کودے سکتے ہیں۔ لوگ کچھ بھی کہتے ہیں اور ان پر الزام لگاتے ہیں، خاص طورپر ایل این جی کے معاہدوں کے حوالےسے۔ انھوں نے ہمیشہ پوری ذمہ داری لی لیکن کبھی اپنےبے گناہ ہونےپرکااحتجاج نہیں کیا۔جب عباسی کو وزیراعظم منتخب کیاگیا تو انھوں نے مجھے بتایاکہ دیگرمعاملات کو سمجھتے ہیں لیکن معیشت کو نہیں جانتے اور چاہتے ہیں کہ میں ان کی مدد کروں۔لیکن یہ بھی ان کی عاجزی تھی۔ جب میں نے ان کے ساتھ کام کیاتو مجھےملکی معیشت کے بارے میں سب پتہ لگااور واقعی ہم دوافرادنےان کےگھرناشتے کےبعدتمام ایمنسٹی اور ٹیکس کم کرنےوالی سکیمیں تیار تھیں۔ میں نے دوستوں کو ان کے سمارٹ ہونے کے بارے میں نہیں بتایا بلکہ بہت زیادہ سمارٹ ہونےکےبارے میں بتایا۔ نہ صرف توانائی سےمتعلق اجلاسوں میں، جن پر انھیں مہارت تھی، بلکہ معیشت کے اجلاسوں میں بعض اوقات میں ان کی قابلیت پرحیران ہوجاتاتھا۔ لیکن دیگرکئی سمارٹ لوگوں کے برعکس وہ اپنی ذہانت کےبارے میں مغرورنہیں تھے۔ اس سے ان کی خوداعتمادی کاپتہ لگتا ہے۔ میں نے وزیراعظم عباسی کےماتحت بطوران کےسپیشل اسسٹنٹ، ان کے مشیراور بالآخرایک وزیر کےطورپرکام کیا۔ میں نے کبھی اتنے عاجز، اصلی اور ذہین شخص کے ساتھ کام نہیں کیا۔ پاکستان مستقبل میں ان کےجیسے لیڈر ہونےپرخوش قسمت ہوگا۔