غزالہ جبران
منچھر جھیل میں مختلف ڈیزائنوں کی کشتیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، ان میں کچھ تو صرف رہائش کی غرض سے بنائی جاتی ہیں،جن میں سوائے فرنیچر کے گھر کا پورا سامان موجود ہوتا ہے۔ اسے تین اطراف سے کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے، جب کہ ایک سائیڈ ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔یہ مکان نما کشتی لکڑی کے تختوںاور چٹائیوں سے بنائی جاتی ہیں، ایسی کشتیوں کو ’’ڈونڈھی‘‘ کہتے ہیں۔ زیادہ بڑی کشتی کو ’’لانگ بیڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کشتیاں عام طورپر 30سے 60فیٹ چوڑی ہوتی ہیں۔ڈونڈھی کے ہر حصے کا الگ نام ہوتا ہے۔ اس کے آگے والا حصہ ،جوکہ پچھلے حصے کی نسبت زیادہ ابھرا ہوا ہوتا اور اندر سے خالی ہوتا ہے اس کو ’’آگل‘‘ کہتے ہیں،یہ حصہ اسٹور کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ بوقت ضرورت یہاں پر مچھلیاں بھی رکھی جاتی ہیں، پچھلے حصے کو ’’پاچھل‘‘ کہتے ہیں، یہ بھی اندر سے خالی ہوتا ہے، جہاں پر لکڑی ، ٹن کے ڈبے اور بستر وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔
اس حصے میں برتن وغیرہ بھی رکھے جاتے ہیں ،جس سے گھر والوں کی معاشی حالت کا اندازہ ہوتا ہے۔کشتی کے بیچ میں کیبن ہوتا ہے اور اس کی چھت پر جلانے کی لکڑیاںااور دوسرا سامان رکھا جاتا ہے۔ کشتی کا پچھلا حصہ پانی کی سطح سے کچھ اوپر ہوتا ہے ،تاکہ لہروں سے بچا جاسکے ،جو تیز ہوا ؤںسے پیدا ہوتی ہیں۔چھوٹی کشتیاں مچھلیاں شکار کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، وہ کھلی ہوئی ہوتی ہیں، ان کو ’’بتیلو، ہوڑو، گالیو اور کاتر‘‘ کہا جاتا ہے۔ منچھرجھیل میں چلنے والی تمام کشتیاں نیچے سے سیدھی ہوتی ہیں سوائے کاتر کے، جو دوسری کشتیوں کے مقابلے میں تیز چلتی ہے۔ ان کشتیوں میں زیادہ سے زیادہ چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان کا اگلا یا پچھلا حصہ تھوڑا بہت خالی ہوتا ہے، جہاں شکار کی ہوئی مچھلیاں اور جال وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔
چھوٹی کشتی ایک ٹن وزن برداشت کرنے کی سکت رکھتی ہے،جب کہ بڑی کشتی زیادہ سے زیادہ ڈھائی ٹن وزن اٹھاسکتی ہے۔ ان کشتیوں کے علاوہ بڑے سائز کی مسافر بردار کشتیاں بھی ہوتی ہیں ، جو مسافروں کے ساتھ مال مویشی بھی لانے لے جانے کے کام آتی ہیں۔ ایسی کشتیاں بوبک اور شاہ حسن کے درمیان چلتی ہیں۔ شاہ حسن گائوں منچھر جھیل کے بالکل اوپر ہے اور تعلقہ سیوہن گائوں بوبک سے 10سے 12میل کے فاصلے پر ہے۔ایک عام ڈونڈھی سے جھیل کو پار کرنے میںتقریباً 4گھنٹے لگتے ہیں۔ بڑے سائز کی کشتیاں چلانے والے کشتی بان 10روپے فی کس کرایہ لیتے ہیں، جب کہ تبیلو ، گوڑو، گالیو، کاتریا چھوٹی ڈونڈھی سو روپے فی دن کرایہ پر شکار کے لیے لی جاسکتی ہے۔ کرایہ کی کشتی کے ساتھ دو مہانے بھی ہوتے ہیں۔رہنے اور شکار کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کے علاوہ کچھ ایسی کشتیاں بھی ہوتی ہیں ،جوبہ طور دُکانیں کام آتی ہیں، یہ پانی میں تیرتی رہتی ہیں ہیں ،جن میں روز مرہ استعمال کی اشیا جیسے کپڑے، غسل خانے کا سامان، بچوں کے کھلونے، ٹافیاں، چاکلیٹ بسکٹ اور تاش وغیرہ فروخت کے لیے رکھے جاتےہیں۔
مقامی مہانے بہت اچھی کشتیاں بناتے ہیں، یہ لوگ دانستر کینال کے کنارے پر رہتے ہیں۔ تقریباً ہر کشتی پر اندر اور باہر ڈیزائن بنے ہوتے ہیں ،جن میں پھول، پودے، پرندے اور مچھلیوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔ پھول ، پودوں کے ڈیزائن عام ہیں ،جب کہ مچھلی اور مور کے ڈیزائن مشکل ہونے کی وجہ سے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ایک بڑی ڈونڈھی 80ہزار سے ایک لاکھ میں، جب کہ چھوٹی 30سے 50ہزار میں تیار ہوجاتی ہے، جب کہ شکار کرنے والی کشتی 15ہزار میں تیار ہوتی ہے، بڑی ڈونڈھی تیار کرنے کے لیے 8آدمی مل کر کام کرتے ہیں، اس کی تیاری میں تقریباً 25سے 30دن لگتے ہیں۔ جب کہ چھوٹی ڈونڈھی 10سے 20دنوں میں بآسانی تیار ہوجاتی ہے۔ اگر کشتی کی اچھی دیکھ بھال کی جائے، تو یہ تقریباً پچاس برس تک قابل استعمال رہتی ہے۔