• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر احمد حسن رانجھا، لاہور

دُور تک سبزے کے میدان پھیلے تھے۔ ہرے بَھرے میدان…جیسے ہر طرف مخملیں، زمرد رنگ قالین اور غالیچے بچھا دیے گئے ہوں۔ وہ دونوں سہمے سہمے سے آگے پیچھے چل دیے۔ دونوں کے چہروں پہ حیرانی وپریشانی ایک واضح تاثر بن کر اُبھر آئی تھی۔ اب تک کی ساری صورتِ حال اُن دونوں کی سمجھ سے باہر تھی۔ یہ ایک خُوب صُورت باغ تھا، جس میں وہ اِدھر سے اُدھر پھر رہے تھے۔ انواع و اقسام کے درخت تھے۔ جن پہ رنگ برنگے پرندے اُڑانیں بَھرتے آتے اور پَروں کو سمیٹ کر بیٹھ جاتے۔ اُن پرندوں کی چہچہاہٹ سے فضا سُریلے نغموں سے مخمور معلوم ہورہی تھی۔ سرسبز و شاداب میدانوں میں انواع و اقسام کے پھولوں کے پودے مختلف روشنیوں کی صورت بکھرے پڑے تھے۔ جہاں جہاں بھی نظر پڑتی، ایک قوسِ قزح کا سا منظر پھیل آتا۔ 

فضا اتنی خوش بُودار تھی کہ معطر سانسیں جب جسم کے اندر اُترتیں، تو رگ و پے میں خود بخود ایک سرمستی سی چھا جاتی۔ مختلف رنگوں کی نہریں، اُس چمن میں رواں دواں تھی۔ اگر پانی کی نہر کو دیکھتے، تو پانی اتنا شفّاف تھا کہ تہہ میں بکھرے ریت کے ذرّے موتیوں کی مانند چمکتے محسوس ہوتے۔ ان میں سے ایک نے پانی کا گھونٹ چکھا، اس نہر کا پانی اتنا رسیلا تھا کہ اُسے لگا، جیسے اس نے گلے میں شہد ٹپکا لیا ہو۔ اس میٹھے پانی کی حلاوت آہستہ آہستہ حلق سے نیچے اُتر رہی تھی۔ کہیں سفید، بالکل ابرق جیسی نہر تھی۔ دودھ ایسی سفید کہ آنکھیں چندھیاتی تھیں۔ کچھ نہروں میں بالکل سُنہری رنگ کا محلول تھا، جیسے سونا پگھلا کر اُن میں بہادیا گیا ہو۔ اب وہ طلائی رنگ کا سیال ٹھاٹھیں مارتا پھر رہا تھا۔ ایک حیرت کدہ، جس کی طرف وہ نکل آئے تھے اور مَیں دبے قدموں چُپ چاپ خاموشی سے اُن کے پیچھے پیچھے تھا۔ وہ میری موجودگی سے بالکل بے خبر تھے۔ کبھی مَیں اُس طلسمی چمنستان کو دیکھتا اور کبھی ان دونوں کو۔ مَیں حیران تھا کہ وہ دونوں یہاں کیسے آگئے اور مَیں کیسے اُن کے پیچھے پیچھے اس خُوب صُورت باغ میں آنکلا۔

ایک نے دوسرے سے کہا،’’خس و خاشاک سے بَھرا وہ ایک میدان تھا۔ دھوپ اتنی تیز کہ کھال تپ اُٹھتی تھی اور پسینہ تھا کہ شرابور کیے چلا جاتا تھا۔ زمین بھی دہک رہی تھی اور فضا میں بلا کا حَبس تھا۔ اچانک اُس نے مجھے ٹانگوں سے پکڑا اور نیچے گرا دیا۔ اُس کے ہاتھوں میں تیز دھار چُھری تھی، سورج کی کرنیں، جب اُس کی دھار پر پڑتیں،تو اور بھی چمکا کر رکھ دیتیں۔ خوف کی ایک سرد لہر میرے رگ و پے میں سماگئی۔آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا۔اس مونچھوں والے خوف ناک آدمی کا چہرہ کبھی آنکھوں کے آگے اُبھرتا اور کبھی ڈوبنے لگتا۔ اس کی آنکھیں سُرخ تھیں، بالکل سُرخ، جیسے اندھیری رات میں کسی اَنگیٹھی کے اندر راکھ میں بالکل آخری دو انگارے رہ گئے ہوں اور پھونک مارنے پر وہ دہک اُٹھیں۔ چُھری اس کے ہاتھ میں تھی اور اس کے چہرے پر دُور دُور تک رحم کا کوئی نشان تک نہیں تھا۔ اس نے تکبیر پڑھی اور تکبیر پڑھتے پڑھتے چُھری کی تیز دھار میری گردن پر رکھ دی۔ مجھے لگا، جیسے ہی یہ چُھری گردن کی جِلد کاٹے گی، درد کی ایک کیفیت پورے جسم میں پھیل جائے گی۔ درد، رگ و پے میں اُترے گا اور جسم کے ریشے ریشے کو ادھیڑ کر رکھ دے، مگر اگلے لمحات بڑے عجیب تھے، بہت عجیب، جن کی مجھےتوقع بھی نہ تھی۔‘‘ اس نے تھوڑا توقف کیا۔ 

سامنے درخت میں چَہچہاتے پرندوں کو دیکھا اور پھر سے اپنی گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑ دیا۔ ’’چُھری نے گردن کی جِلد کاٹی اور نرخرے میں اُتر گئی، خون فوّارے کی مانند نکلا اور اِردگرد زمین سُرخ کرنے لگا۔ میرے حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکلیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مجھے درد بالکل بھی محسوس نہیں ہوا، کسی بھی قسم کا درد۔ وہ آوازیں شاید خوف کی کیفیت میں نکلی تھیں۔ گلا کٹنے کا خوف، خون بہنے کا خوف۔ پھر میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا گیا۔ اردگرد پھیلی خون کی سُرخی دھندلاتی گئی اور یک دَم جیسے میں کسی گہرے تاریک کنویں میں اُتر گیا۔ اب مجھے ہوش آیا، تو مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘

وہ دونوں ایک طرف کو چل دئیے۔ مَیں بھی ان کے پیچھے پیچھے تھا۔ چلتے چلتے وہ ہرے بَھرے میدان ختم ہوگئے اور ایک اونچی فصیل آنکھوں کے سامنے اُبھر آئی۔ اتنی اونچی کہ اُس کا سرا آسمان سے مِلتا محسوس ہورہا تھا۔ اُس فصیل میں ایک اونچا محراب دار دروازہ تھا۔ محراب، جسے جڑائو اینٹوں سے ایسے بنایا گیا تھا کہ باریک پچی کاری کے کام سے وہ اینٹیں، پھولوں اور بیلوں کی صورت اختیار کر گئی تھیں۔ اُس محراب کے اندر دو بہت بڑے پَٹ دروازے کی صورت اِستادہ تھے۔ 

طلائی رنگ سے مرصّع اُس دروازے کی آرایش ہیرے، زمّرد اور یاقوت کو اس ترتیب سے استعمال کیا گیا تھا کہ آنکھیں خود بخود اُس کاریگر کی صنّاعی پہ حیرت سے پھیل جاتی تھیں۔ دو بہت لمبے تڑنگے آدمی اُس دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ اُنہوں نے سفید رنگ کی لمبے لمبے چوغے زیبِ تن کر رکھے تھے اور ان کے چہرے واضح نظر نہیں آرہے تھے۔ جب وہ دونوں دروازے پر پہنچے، تو ان پہرے داروں نے دروازے کے پَٹ وا کر دیے۔ دروازے کی دوسری طرف گھپ اندھیرا تھا۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا، دُور تک کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ مَیں اس گھپ اندھیرے میں اُن کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ گہری تاریکی اور پُرہول سناٹا، دِل ڈوبنے لگا تھا۔ اُن دونوں کے قدموں کی چاپ اس سناٹے میں گونجتی اور مَیں اُس چاپ کے تعاقب میں اُن کے پیچھے دَبے قدموں سے رواں دواں ہوجاتا۔ بہت دیر چلنے کے بعد وہ تاریک میدان ختم ہوگیا۔ 

سامنے ایک گلی سی نظر آنا شروع ہوگئی۔ ایک لمبی سی گلی، جس کے دو طرف سُرخ اینٹوں سے بنے مکان تھے۔ وہ دونوں اُس گلی میں داخل ہوگئے۔ مَیں بھی اُن کے پیچھے گلی میں داخل ہوگیا۔ ’’کیا یہی ہے وہ گھر…؟‘‘ ایک نے دوسرے پوچھا۔’’ہاں یہی ہے۔‘‘ دوسرا بولا۔’’پر یہ مُعّما سمجھ نہیں آیا۔ مَیں یہاں تھا، مجھے ذبح کیا گیا، لیکن جب میری آنکھ کُھلی، تو مَیں اس باغ میں تمہارے ساتھ تھا۔ اب پھر ہم ادھر ہیں۔‘‘ اُس دوسرے کے لہجے میں حیرت تھی۔وہ دونوں یہ باتیں آپس میں کر رہے تھے کہ یک دَم گھر کا دروازہ کُھلا اور ایک موٹا تازہ آدمی باہر نکلا۔ اتنی بڑی توند تھی کہ اُسے دیکھ کر خوف محسوس ہوتا۔یہ بڑی بڑی خون خوار قسم کی مونچھیں۔’’ہاں یہی ہے… یہی ہے، وہ شخص، جو مجھے منڈی سے خرید کر لایا تھا۔‘‘ دوسرا بولا۔’’اس آدمی نے تمہیں منڈی سے خریدا۔ 

تمہاری قربانی دی اور تم اس قربانی کے بعد جنّت میں پہنچ گئے۔ اب تم اُس وقت سے میرے ساتھ ہو۔ مَیں پچھلے سال جنّت میں آیا تھا۔‘‘ پہلے والا بولا۔’’مَیں اگر جنّت میں ہوں، تو یہ شخص بھی جنّت میں جائے گا؟ حالاں کہ یہ تو جب مجھے منڈی سے خرید کر لایا تھا، تو پورے محلّے میں شیخیاں بھگارتا پھر رہا تھا کہ پورے ایک لاکھ کا بکرا خرید کر لایا ہوں۔ دیکھتا ہوں کون کرتا ہے، میرے جیسی قربانی۔ اُف اللہ اتنا ریا کار شخص تھا کہ اسے دیکھ کر ہی مجھے گِھن آتی تھی۔‘‘ ’’تمہاری وجہ سے یہ آدمی جنّت میں نہیں جائے گا۔ اُسے تو بس اس کی ریاکاری اور وہ گوشت ہی بچے گا، جو اس نے پورے مہینے کے لیے فریج میں سنبھال کر رکھ لیا ہے۔‘‘

اچانک ایک بے ہنگم سا شوربُلند ہوا۔ مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ آنکھیں کُھلیں، تو مَیں اپنے بستر پر لیٹا تھا۔ الارم کے بے ہنگم شور نے سارا کمرا سَر پہ اُٹھا رکھا تھا۔ مَیں نے کھڑکی سے باہر لان میں دیکھا، قربانی کا بکرا، جو مَیں رات لایا تھا، گھاس چَر رہا تھا۔ مَیں نے گردن جُھکائی اور اپنے گریبان میں جھانکا۔ رات جو کورے کورے نوٹ گنتے ہوئے ریاکاری کے خیالات بار بار دِل میں آرہے تھے، اِس خواب کے بعد مَیں نے کوشش کی کہ فوراً سے پیش تر کُھرچ پھینکوں۔

تازہ ترین
تازہ ترین