• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیلنج…محمد سعید اظہر


2018کے عام قومی انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی نئی منتخب حکومت کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ ہر نئی منتخب حکومت کے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد ہمارے معاشرتی رویے خاص طور پر میڈیا کس قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کی چند جھلکیاں آئندہ سطور میں پیش کی جا رہی ہیں اور نہایت درد مندی سے تمام طبقوں کو خدا خوفی اور توازن سے کام لینے کی درد مندانہ اپیل کی گئی ہے، گو اس کے اثرات کا ایک فیصد بھی یقین نہیں، بہرحال انسان کو اچھے کاموں میں اپنی چونچ سے پانی کا قطرہ آگ بجھانے کے لئے ڈال دینا چاہئے، باقی دنیا جانے اور دنیا کا خالق! اب آپ اپنے مجموعی طرز فکر اور طرز عمل کی وہ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں جن کا اوپر کی سطور میں اشارہ کیا گیا ہے اور جن کے ہم عادی ہو گئے ہیں۔ ایسے تمام حضرات جنہوں نے پاکستان بننے سے لے کر آج تک قومی خزانے سے کسی نہ کسی شکل میں کوئی بھی مراعات حاصل کی ہوں، وہ ایک سرٹیفکیٹ دیں۔ تجویز کردہ سرٹیفکیٹ یہ ہے ’’میں تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے قومی خزانے یا اختیارات و تعلقات کا ناجائز استعمال کر کے کوئی اثاثہ جات نہیں بنائے اور نہ ہی سرکاری فنڈز میں کوئی خورد برد کی ہے۔ اگر ایسا ثابت ہو جائے تو مجھے سزائے موت دی جائے اس سرٹیفکیٹ کو میرے خلاف ثبوت تصور کیا جائے۔‘‘ ان صاحب نے قومی گند صاف کرانے کے لئے ایسی چھلانگ لگائی ہے، جس کی طوالت نے ہمیں لرزے کی ہیجان انگیزی میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ روشنی کی رفتار سے زیادہ سرعت رفتار دکھائی دیتے ہیں۔


کیا ہم کسی کا مضحکہ اڑا رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں، ہمیں اس طرح نیت کے ساتھ دوسروں کا مذاق اڑانے کی عادت کبھی نہیں رہی۔ حقیقت میں ہمارے دماغی اوسان خطا کی قید میں ہیں۔ آپ خود سوچیں ہم گزشتہ چند ماہ سے ایسے تحریری دانش مندوں کی زد میں رہے ہیں، جن کے نزدیک قومی مفاہمت، ضمیر فروشی، آئین و قانون کی صبر آزما مسافت، بزدلی اور بین الاقوامی جنگوں میں دیانتدارانہ حکمت عملی بے غیرتی ہے۔ ابھی ہمارے دماغی اوسان اس سطح پر متوازن نہیں ہوئے تھے کہ 25جولائی کو قومی انتخابات انعقاد پذیر ہو گئے اور ایک بار پھر یہی دانش مند ہمارے لئے پیر تسمہ پا بن چکے ہیں، جو 70برس کا قومی گند چند ہفتوں میں ختم کرانے کے لئے ہماری اور قوم کی گردن پر سوار ہیں۔ ان سے رہائی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ منتخب حکمران اور سیاستدان ان کا آسان ترین ہدف ہیں، جس کے بعد ان کے لفظی سوداگری کے کاروبار کو چار چاند لگ رہے ہیں۔ ہمارے دل کی گواہی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی کہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو ان سے کھربوں میل دور رہنا چاہئے۔ ان کی حسیات میں دھڑکن موجود نہیں۔ آخر اس سارے انتشار فکر اور اختلاخ قلب کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟


قدرت نے ہمیں غور و فکر کی جتنی اہلیت سے نوازا ہے۔ اس کے مطابق ان خبروں کی نشاندہی کچھ اس طرح سے ہوتی محسوس ہوئی ہے کہ ہم خدا کے نہیں تو کم از کم فطری قوانین کے براہ راست دشمن ضرور ہیں۔ ہماری ان سے روبرو جنگ جاری ہے۔ قانون اعتدال و توازن کو تو ہم نے تحت الثریٰ سے بھی کہیں گہری کھائیوں میں دفن کر دیا ہے۔ گرین پاسپورٹ کی حالت زار سے لے کر 25جولائی 2018کے انتخابات تک گزری ہوئی تاریخ ہمارے اعمال اور ہمارے ان متذکرہ دانشوروں کے سینے میں بدنصیبی کی صلیب بن کے پیوست ہو چکی ہے، تاہم انہیں نہ اپنے آپ پر نہ اس ملک اور اس کے سادہ لوح عوام کی اکثریت پر ترس آتا ہے، جن کے اجتماعی شعور نے ان کے تمام تجزیوں، پیش گوئیوں، بڑے بولوں اور زعم پرستیوں کا ہمیشہ جنازہ نکالا۔ ایسا نہ ہوتا تو آج پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کم از کم صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں۔ پھر آخر میڈیا کے لافانی ہونے کا اصرار کیوں کیا جاتا ہے؟ محض اپنی نفسانی تسکین کے لئے کیا ہم اس سے تھوڑا سا اِدھر ایسا سانس نہیں لے سکتے، جس سانس میں ملک اور قوم کی فلاح کا کوئی احساس بھی موجود ہو؟ اپنی روٹی روزی کے لئے بارعب اصطلاحات کے آسمانوں پر براجمان ہو کے قومی ارتقاء کے ہر نئے لمحے پر تیر اندازی اور خنجر پھینکنے کا ہنر حب الوطنی کے کس تقاضے کا تقاضا ہے؟


ہم شدت پسند نظریات بازوں اور انشاء پردازی کے ارمان پسندوں پر تبصرہ نہیں کر رہے۔ ہماری پریشان خاطری نے ہمیں اپنی برادری اور دیگر اہل فکر و نظر کے آتش فشانی مزاجوں کو چھونے پر مجبور کر دیا ہے اور اس مجبوری کو پاکستانی عوام سے ہماری محبت نے جنم دیا ہے۔ وہ ہم سے باقاعدہ استفسار کرتے ہیں:’’یہ دانش مند لوگ تو ہمیں کسی بھی مصیبت کے حل پر متفق نہیں ہونے دیتے۔ متفق ہو بھی جائیں تو ان کی بزم آرائیاں ہمارا سکھ چین چھین لیتی ہیں؟ انہیں آپ صبر و حکمت اور تدبر کی تلقین کریں۔‘‘ ان تینوں خیرہ کن صفات کے حوالے سے تو ہم خود شخصی بحران کا شکار رہتے ہیں۔ بہرحال پاکستانی عوام کی اکثریت کے اس نالہ و فغاں کا مطلب یہ ہے کہ شدت پسند نظریات بازوں نے 70برس میں پہلی بار ورطہ حیرت کی علامت بن جانے والے عوامی انتخابی فیصلے کے مقابلے میں قومی اربوں روپیہ لٹا دیا، جس کا آج تک کوئی حساب نہیں ہوا۔ اب چونکہ قومی غربت ہے۔ اس لئے اربوں کھربوں تو نہیں کروڑوں اور لاکھوں روپوں کی شکل میں ذرا مختلف طریقوں سے قومی دولت کا زیاں جاری ہے پاکستان کا واقعاتی اور حقیقی منظر یہ ہے کہ ہماری تیار کردہ پالیسیوں اور مذہبی ایکسپلاٹیشن کی پیداواری فصل مجاہدین پاکستان کے لئے عالمی ایف آئی آر کا سبب بن چکے ہیں۔ قبائلی علاقہ جات، سوات اور پشاور سمیت جہاں جہاں انہیں قدم جمانے کا موقع ملا وہاں وہاں لوگوں کی نارمل زندگی تباہ ہو چکی ان علاقوں سے صاحب حیثیت اور صاحب ذرائع خاندان اور افراد فی الحال سینکڑوں کی تعداد میں کراچی ہجرت کر چکے ہیں۔ سیاسی قیادت کی مومنانہ بصیرت کو اپنے تاریخی فیصلوں اور آفاقی پیش گوئیوں سے کچھ عرصے کے لئے بریت عنایت فرمائیں ہو سکتا ہے پاکستان اور پاکستانیوں کا تصور ہمیشہ کے لئے سنور جائے۔ ہو سکے تو یہ حضرات کانٹ کا یہ قول زبانی یاد کر لیں۔ ’’ہمیں قطعاً معلوم نہیں کہ اشیائے بجائے خود کیا ہیں۔ ان کے متعلق ہمارا علم صرف اشکال تک محدود ہے۔ ہم ’’حقیقت اشیاء کا حقیقت کل‘‘ کا علم کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ ناممکن ہے لیکن یہ نیک شدت پسند نظریات باز پاکستان، عراق، افغانستان کے مسائل تو رہے ایک طرف لوگوں کی عاقبت تک کے قصے سنا دیتے ہیں۔


واقعاتی اور حقیقی منظر، پاکستان کے 70برس کے ماضی میں پوشیدہ ہے۔ یہ ماضی جس میں طالع آزمائوں، عوامی اور آئینی بالادستی کی نرسری شروع ہونے سے پہلے اس پر فوجی شپ کے خون کا بلڈوزر چلایا جا چکا۔ پاکستان کے تمام فوجی وغیرہ فوجی حکمرانوں اور ان کے ادوار میں ایوان اقتدار کی راہداریوں میں فائز ان کے ساتھیوں، حواریوں، طفیلیوں نے پاکستان کے لئے دی جانے والی بین الاقوامی امداد اور خود پاکستان کی اندرونی معیشت سے پاکستانی خزانے میں جمع ہونے والے اربوں اور کھربوں روپوں کی کرپشن کی، دوران اقتدار اپنی آن بان اور لذت حکمرانی کی شان و زیبائش سے بھرپور لطف اندوزی کے لئے ایڑیاں اٹھا اٹھا کے فیصلہ کن قرار دینا چاہئے، نہ ’’اگلے 48گھنٹے اہم ہیں‘‘ جیسی خبری عیاشیاں کرنی چاہئیں پاکستانی اپنے ملک کی فضا کے Clearہونے میں انتظار کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے سمیت مقدس خطیب قلمکاروں سے لے کر ملک و قوم کی قیمت پر صحافتی چٹخارہ سازی سے گریز کرتے رہے۔ دانش و توازن کی فضا برقرار رکھنا ہو گی۔ پاکستان پر متوقع مصائب کے جو منحوس سائے گہرے ہو چکے ہیں ان کے انسداد کی دعائیں اور تدابیر کرنی ہوں گی۔ چنانچہ ہماری عاجزانہ رائے میں ہر لمحہ نازک آتشیں ہے اور تصادم ہی کا اندیشہ ہے۔ ہم پاکستان کی زہریلی سیاسی تاریخ کے تسلسل سے نمٹ رہے ہیں، یہی پاکستان کا واقعات اور حقیقی منظر ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین