• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھریسامے حکومت دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ انتشار کا شکار

2017الیکشن سے لے کر اب تک کم از کم ایک ایم پی نےایک چوتھائی پارلیمنٹری ڈویژنزمیں حکومت کے خلاف بغاوت کی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ تناسب سب سے زیادہ ہے کہ کسی بھی اکثریت والی ٹوری رہنماکو بغاوت کا سامنا ہے۔ 

نئی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنگ کے بعد کسی بھی ٹوری حکومت میں برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے بیک بینچ ایم پیز سب سے زیادہ سرکش ہیں۔

2017الیکشن سے لے کر اب تک کم از کم ایک ایم پی نےایک چوتھائی پارلیمنٹری ڈویژنزمیں حکومت کے خلاف بغاوت کی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ تناسب سب سے زیادہ ہے کہ کسی بھی اکثریت ٹوری رہنماکو بغاوت کا سامنا ہے۔

لیکن اس کے باوجود دوسری عالمی جنگ کےبعد تمام بیک بینچرز باغیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

پولیٹکل سائنس کے ماہر تعلیم پروفیسر فلپ کاؤلے، ڈاکٹر مارک اسٹیورٹ اور پروفیسر فلپ نارٹن کی جانب سے یہ تحقیق کی گئی ہے جبکہ برطانوی موقر اخبار دی ٹیلی گراف نے اس حوالے سےایک سپلیمنٹ بھی شائع کیا ہے ، اس کے مطابق موجودہ حکومت، مخلوط حکومت بنانے کے بعد نمایاں طورپر منقسم نظر آتی ہے ۔

2010 سے لیکر 2015 تک بیک بینچرز 35فیصد ڈویژنز اور فری ووٹس کو کم کرنےمیں اختلاف رائے رکھتے تھے جن میں فلیگ شپ قانون سازی پر اہم بغاوت بھی شامل تھا۔

سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو لیبر پارٹی میں انحصار کرنا پڑتا تھا ۔مثال کے طور پر139 کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹیو ایم پیزکے وہپ (قانون سازی کے دوران اپنی موجودگی کو یقینی بنانا اور پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ ڈالنا)سے اختلاف رکھنے کے باجود 2013 میں ہم جنس کے ساتھ شادی کا قانون منظور کیا۔

لیبر حکومت نے 2002 تا 2010 تک ہاؤس آف لیبر ریفارم کے ساتھ ساتھ ہارلوڈ ولسن کی 1974 تا1979 تک اقلیتی حکومت میں کئی ناکامیوں کا سامنا کیا اور ان کی حکومت تھریسامےسے بھی کم متحد تھی۔ دونوں حکومتوں میں 28فیصد ارکان اسمبلی کے ووٹس منقسم تھے۔

2001کے بعد پارٹی کمزور ہوگئی

اعداد و شمار کے مطابق دورجدیدکی اسمبلیاں زیادہ باغی ہوتی جارہی ہیں ، ٹاپ ٹین بغاوتیں 2000کے بعد سے ہی ہوئی ہیں ۔ جس میں 2015-2017 ٹوری دور حکومت شامل ہے جو گورننگ باڈی کی ابتدائی منقسم فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

لیکن تھریسامے نے توقع کے مطابق بہت سارے بیک بینچر کو نہیں دیکھا کیونکہ بریگزٹ کے مخالفین کچھ مزید کرنے سے ہچکچارہے ہیں جس سے موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے کا خطرہ ہوگا۔

یونیورسٹی آف ناٹنگھم کے سوشل سائنس کے پروفیسر مارک اسٹیورٹ کا کہنا ہے کہ ’’جو نتائج سامنے آئے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دو اسمبلیوں کے مقابلے میں بغاوت کا عمل ابھی سست ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ عام طور پر حکومتیں بغاوت کےلئے تیار رہتی ہیں۔‘‘

لیکن اس کے برعکس اعداد وشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کی اکثریت اور سرکش ایم پیز کے درمیان کوئی گہرا تعلق نہیں ہے۔

سب سے زیادہ باغی بیک بینچرزکے ساتھ پانچ حکومتوں کے پاس 80میں سے کم ایم پیز کی تعداد تھی جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد حکومتیں بڑی تعداد میں اکثریت رکھتی تھی اور کم مخالفین کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اسٹیورٹ کا کہنا ہے کہ 1950 اور1960 سے قبل نام نہاد آزاد بیک بینچ کا سنہرادور ہوا کرتا تھا لیکن درحقیقت یہ دور تقریبا پورشین نظم وضبط کے مطابق تھا۔

1970 میں تقریبا پارٹی میں اتحاد ایک اصول تھا جب ٹیڈ ہیتھ کو ٹوری رائٹ کی طرف سےبہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

سرکشوں کی تبدیلی

اسی طرح سابق برطانوی وزیراعظم جان میجر کے عہد کے دوران یورپ اور ماستریخت معاہدے پر آپسی لڑائی کا شکار اور منقسم تھی اور آج 25 برس بعد وہ اپنی ہی جماعت کے اندر یورپی یونین مخالف ’سرکشوں‘ کی مخالفت کررہے ہیں۔ اگر چہ تھریسامے کے دور حکومت میں یورپ کا مسئلہ سرفہرست ہے تاہم برطانوی وزیراعظم کو مختلف باغی گروہوں کا سامنا ہے۔

موجودہ دور حکومت میں 112 مواقعوں پر 15 ارکان اسمبلی نے قانون سازی کے دوران اسمبلی میں موجودگی کو یقینی بنانے کے قانون کی خلاف ورزی کی اور یورپ سے متعلق قانون سازی کی مخالفت کی۔ ان تمام ارکان اسمبلی نے برطانیہ سے یورپی یونین کے انخلاء کے ریفرنڈم میں برطانیہ کے یورپ سے انخلاء کی مخالفت کی تھی۔

یہ کنزرویٹیو کی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں یکسر مختلف ہے۔ ڈاکٹر رچرڈ وائٹکر اور ڈاکٹر فلپ لائنچ کی ریسرچ کے مطابق 2017 سے قبل صرف یورو مخالف سیاستدان ہی ٹوری قیادت کے لئے درد سر بنی ہوئی تھی۔

2010 اور 2015 کے دوران تقریباً ایک چوتھائی ارکان پارلیمنٹ جو کہ اب بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں نے یورپ سے متعلق قانون سازی کی مخالفت کی اور متواتر طور پر برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کے حق میں ووٹ دیا۔ 2015 اور2016 کے دوران یہ شرح بڑھ کر 93 فیصد ہوگئی۔

یونیورسٹی آف لیسسٹر میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر رچرڈ کہتے ہیں کہ ’’کنزرویٹیوز کو ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں برطانیہ سے یورپی یونین کے انخلاء کے مخالفین اجنبی ہوگئے ہیں جبکہ ماضی میں یہ لوگ ماضی میں یورپی یونین کے مخالف تھے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ تبدیلی آہستہ آہستہ خاص طور پر ریفرنڈم کے بعد سے ہوئی ہے لیکن اب یہ نئے لوگوں کا ایک گروہ ہے جو قیادت کے لئے مسائل پیدا کررہا ہے۔

عوام کے اندر موجود انتہائی اختلافات

ٹوری پارٹی کے درمیان موجود اختلافات غیر واضح سے بھی آگے کی بات ہے، 2017 کے انتخابات کے بعد سے تھریسامے کابینہ کے 6 ارکان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، یہ شرح 1992 کے وزیراعظم کے بعد سے وزراء سے محروم ہونے کی کئی گنا بڑی ہے۔

عوامی آراء پر معنی خیز اثر پڑتا ہے۔ برطانوی مارکیٹ ریسرچ کے ادارے کے مطابق کنزرویٹیو پارٹی کے 73 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ کنزرویٹیو پارٹی منقسم ہے، یہ 2011 کے بعد سے سب سے بڑی شرح ہے ایک ایسے موقع پر کہ جب سب سے پہلے پارٹی کے اصول کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں۔

اس کے برعکس ایک تہائی برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ 2015 کے عام انتخابات کے بعد پارٹی منقسم ہوگئی۔

اسی طرح ’یو گور‘ نے بھی یہی کہانی سائی ہے۔ گزشتہ برس کے آخر میں ان کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ دو تہائی ٹوریز منقسم ہیں جبکہ ماضی میں یہ شرح 6 فیصد تھی جو کہ متحد ہی نظر آتے ہیں۔ 

تازہ ترین