• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضاکارانہ طورپراعتراف کرتا ہوں کہ میں یہ کالم لکھ نہیں بلکہ گھسیٹ رہاہوں کیونکہ رات بھر کا جاگا ہوا ہوں اور اس عمر میں رتجگے مت مار دیتے ہیں۔ وہ دن کب کے لد گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔

آج کل تو ناک پر بیٹھی مکھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ ہوا یوں کہ بچے دوماہ دو دن کی چھٹیاں منا کر امریکہ سے واپس آ رہے تھے۔ پندرہ سولہ کی درمیانی رات (صبح) ایک بج کر50منٹ پر فلائٹ تھی۔ ننھیال نے حسب معمول تحائف سے لاد کربچوں کو نہال اور مجھے نڈھال کر رکھا تھا۔ گھر پہنچتے پہنچتے صبح کے تین ساڑھے تین بج گئے۔ سونے کاوقت گزرچکا تھا۔ اوپرسےمحمدہ بیٹی اور بڑا بیٹا حاتم خاص طورپرمیرے لئے دو بیگز کتابوں سے بھرلائے تھے۔ ایک سے بڑھ کرایک کتاب۔ میں ندیدوں کی طرح کتابوں کے ٹائٹلز دیکھ دیکھ خوش ہوتا رہا کہ سال بھرکا یہ ’’سامان تعیش‘‘ خاصا باعث ہیجان تھا۔

دو گھنٹے کی ٹوٹی پھوٹی کچی پکی ادھوری نیند میں بھی چین نہیں تھا کیونکہ اک موضوع بری طرح میرے اعصاب پر سوار تھا جس پر کالم لکھے بغیر سوتے رہنا ممکن ہی نہ تھا۔ بظاہر موضوع بہت معمولی لیکن میرے لئے بے حد غیرمعمولی تھا سو عالم خستگی میں لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔ الیکشن نتائج کے بعد ایک ’واردات‘ تو لاہور میں ہوئی۔ PTI کے ایک ’فاتح‘ کے لوگوں نے فائرنگ کرکے جشن فتح منایا۔ نوبت تھانے کچہری تک جا پہنچی۔ اس کے چند روز بعد ہی ٹی وی چینلز کی اسکرینوں پر ایک ایکشن سے بھرپور فلم دیکھی۔ اس کا ہیروبھی PTI کراچی کا کوئی نو منتخب ایم پی اے تھا جو سر عام داؤد نامی اک غریب سن رسیدہ آدمی کے منہ پر تھپڑوں سے ’تبدیلی‘ لکھنے کے بعد اپنے آٹوگراف بھی ثبت کررہا تھا۔

اس ’تبدیلی‘ کی ویڈیو وائرل ہونے پر ایم پی اے داؤد کے گھر گیا اور معافی کا ’تاوان‘ طلب کیا۔ غریب داؤد مہان مہمان کو انکار تو کر نہیں سکتا تھا، اس نے اپنی ناداری و بے بسی کا اعلان کرتے ہوئے فیصلہ عمران خان پر چھوڑ دیا۔ غالباً بدھ کی شام عائشہ بخش نے یہ سوال اپنےپروگرام ’رپورٹ کارڈ‘ میں اٹھایا تو میرا جواب یہ تھا کہ اس جنگجو ایم پی اے کو اسی مقام پر خاص طور پر لے جا کر داؤد کی داد رسی کرتے ہوئے اسے کہا جائے کہ سرعام اس کو اتنے ہی تھپڑ رسید کرے جتنے اسے مارے گئے تھے۔ بظاہر یہ مطالبہ ’غیرقانونی‘ ہے لیکن شاید اس سے کم پر کام نہیں رکے گا۔ غریب پر غصہ آنے کا کلچر تبدیل نہیں ہوگا۔

’روک سکو توروک لو تبدیلی آئی رے‘ میں نے جو سزا تجویز کی وہ علامتی بات تھی، اصل بات یہ کہ کل کے 9ٹانکوں سے بچنا ہے تو آج بروقت ایک ٹانکا لگا لو کیونکہ بوری میں موری ہو جائے تو مگورا بنتے دیر نہیں لگتی۔ ’تبدیلی‘ کا آغاز ’تمیز‘ سے کرنا ہوگا ورنہ یہ وائرس پھیل گیا تو ’پیادوں‘ کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، عمران خان کی 22سالہ جان لیوا محنت غارت ہوجائے گی جو کسی صورت قبول نہیں۔ میں عمران خان سے براہ راست مخاطب ہوں کہ اس بددماغ کو ایسا سبق سکھائے کے دوبارہ PTI کا کوئی بندہ ایسی حرکت کی جرأت نہ کرے ورنہ نقصان ناقابل بیان ہوگا۔ صرف شوکاز نوٹسز سے اس شر پر قابو پانا ممکن نہ ہوگا۔

’رپورٹ کارڈ‘ میں ہی برادرم مظہر عباس جیسے ’چھٹے‘ ہوئے سینئر صحافی دانشور نے بھی اک سزا تجویزکی ہے۔ میری تجویز کردہ سزا میں انتہا پسندی اور لاقانونیت (بقول امتیازعالم) پائی جاتی ہو تو مظہر عباس کے قیمتی اور بالکل مفت مشورے پر ہی عمل کر لیں ورنہ سواری اپنے سامان کی خود ذمہ دار تو ہےہی۔ ’سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں‘ جو لوگ PTI کی پشت پر سوار ہو کر پہلی بار ایوان ِ اقتدار تک پہنچے، وہ بہت خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ عمران خان! روک سکو تو روک لو پلیز!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین