• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوم آزادی کے حوالے سے پائنا اور پنجاب یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز برائے جنوبی ایشیا نے سیمینار کا اہتمام کیا۔ ایک روز قبل قوم نے بے پایاں جوش و خروش اور ایک نئے عزم کے ساتھ یوم آزادی منایا اور اپنی آنکھوں میں حسین مستقبل کے سہانے خواب سجائے ہیں۔ اس بار بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور طورخم سے لے کر ڈیرہ بگٹی اور مکران کے ساحل تک سبز پرچموں کی بہار دیکھنے میں آئی تھی۔

سابق وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری کی صدارت میں سیمینار شروع ہوا جو درس نظامی کے علاوہ امریکا اور برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے فیض یاب ہیں اور تعلیمی اور دینی امور پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ فاضل جسٹس (ر) ایف ایم کھوکھر مہمان خصوصی تھے جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر احمد خاں میڈیئٹر تھے۔ پائنا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے راقم الحروف نے کہا کہ قومی آزادی کے استحکام اور داخلی ہم آہنگی کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے اور برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم کی بے مثال قیادت میں پاکستان حاصل کیا جو اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہے۔ میں نے کہا کہ پاکستان کے بننے سے پہلے اور پاکستان بن جانے کے بعد کے حالات میں زمین آسمان کا فرق دیکھا۔ ہندو قیادت کی شدید تنگ نظری اور بدترین اسلام دشمنی کے باعث مسلمانوں کی دینی، تہذیبی، سماجی اور معاشی بقا کے لیے پاکستان کا قیام ناگزیر تھا۔ وہ ہندو لڑکے جن کے ساتھ میں نے دس سال اسکول میں گزارے تھے، وہ ہمارے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کو شدھی بنانے کی تنظیمیں بہت سرگرم تھیں اور انہوں نے مسلم بستیوں پر حملے بھی شروع کر دیئے تھے۔ ہمیں اچھوت سمجھا جاتا اور ہم پر روزگار کے دروازے بند تھے۔ پاکستان بنتے وقت میری عمر پندرہ سال تھی اور میں نے انٹر کے امتحان میں ٹاپ کیا تھا۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو میں وہاں خاکروب ہوتا یا زیادہ سے زیادہ چپڑاسی ہوتا۔ ہمیں علامہ اقبال اور قائداعظم کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے انگریزوں کی غلامی اور ہندو اکثریت کے جبر سے نجات دلائی اور ایک خوبصورت وطن عطا کیا جس میں ہم آج آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔

راقم الحروف نے بتایا کہ لاکھوں مہاجرین کو خون اور آگ کے دریائوں سے گزر کر پاکستان میں پناہ لینا پڑی تھی۔ سرسہ کے مسلمان جس ٹرین سے پاکستان آئے، اس کے آدھے ڈبے مسلمانوں کی لاشوں سے اٹے ہوئے تھے۔ میں نے سیمینار میں دو باتوں کی گواہی دی۔ پہلی یہ کہ پاکستان سیاسی مذاکرات اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا اور قرارداد مقاصد میں یہ طے پایا تھا کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے اور اسے استعمال کرنے کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہوگا۔ دوسری یہ کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے سیاست دانوں، سرکاری عہدے داروں، کارندوں اور عام شہریوں نے کمال صلاحیتوں اور بے مثال قربانیوں کا مظاہرہ کیا جن کی بدولت پاکستان چند ہی برسوں میں اقتصادی طور پر اس قدر مضبوط ہوگیا کہ اس کے روپے کی قدر بھارت سے کئی درجے بہتر ہوگئی۔ ہمارے نوجوانوں نے بڑے کارنامے سرانجام دیے اور ہم کیکر کے کانٹوں سے گزر کر ایٹمی طاقت بن گئے اور ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ ان ترقیوں کے پہلو بہ پہلو ہماری قوم کو بعض عوارض لاحق ہوتے گئے، جن کا ذکر حضرت قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں کیا تھا۔ ان میں بدعنوانی، اقربا پروری، حسد، رقابت، بے جا نفع خوری اور مفاد پرستی نمایاں تھے۔ بعدازاں غلام محمد، اسکندر مرزا اور چیف جسٹس منیر نے جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا اور بعض دوسرے اسباب سے ہماری داخلی ہم آہنگی کو خطرناک چیلنجز درپیش ہیں۔ ہمیں آج کی نشست میں اُن کا علاج دریافت کرنا اور آزادی کی اہمیت کو روح میں اتارنا ہے۔ ہمیں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں اور اپنی اور ہماری بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

سینئر قانون دان احسان وائیں نے کہا کہ داخلی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا سب سے اچھا راستہ یہ ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کریں اور ہر نوع کی دخل اندازی سے گریزاں رہیں۔ علاوہ ازیں تمام تنازعات نظر آنے والے انصاف کے مطابق طے کیے جائیں۔ مالیاتی امور کے ماہر جمیل بھٹی نے انکشاف کیا کہ اپنے سے دس گنا بڑے دشمن کے ہوتے ہوئے پاکستان نے حیرت انگیز ترقی کی ہے اور بعض شعبوں میں وہ روس اور چین سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو نااہل ثابت کرنے کی بیمار ذہنیت سے نجات حاصل کرکے نوجوان نسل کی نشوونما پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اس خوداعتمادی سے ہماری داخلی ہم آہنگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔ میجر (ر) زکریا نے کہا کہ ہمیں فوج اور عوام کے درمیان رشتوں کو مستحکم کرنا چاہیے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت کو پروان چڑھائیں اور برداشت و رواداری کا دامن تھامے رکھیں، تو فوج کو حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوگی۔ معروف کالم نگار یاسین وٹو کی رائے میں داخلی ہم آہنگی کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ اس قوت ارادی سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کریں گے۔ قلم کار روف طاہر اس موقف کے علم بردار تھے کہ سیاسی جماعتوں کو پنپنے اور جمہوری بنیادوں کو مضبوط کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں اور تمام اداروں کو قرارداد مقاصد کے اس اعلان پر عمل کرنا چاہیے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے اور عوام کے منتخب نمائندے ہی اسے بروئے کار لانے کے حق دار ہیں۔ سیاسی دانشور قیوم نظامی نے کہا کہ داخلی ہم آہنگی کا آزادی کے استحکام سے گہرا تعلق ہے۔

قائداعظم نے جو ہمیں یقین، محکم، اتحاد اور تنظیم کا پیغام دیا تھا، اس میں داخلی ہم آہنگی کے تمام ضروری اجزا موجود ہیں۔ نوجوانوں کو اُن کی سوانح عمری کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس میں عزیمت و حکمت کی عظیم الشان مثالیں جگمگا رہی ہیں۔ اب عمران خاں نے ریاست مدینہ کا ماڈل اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے، تو انہیں سب سے پہلے میثاق مدینہ کی روح کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو ایک معاہدے سے منسلک کرنا اور بالغ نظری کا ثبوت دینا ہوگا۔

جناب جسٹس (ر) ایف ایم کھوکھر نے بنیادی نکتہ اٹھایا کہ معاشرتی اور معاشی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کی موجودگی میں داخلی ہم آہنگی کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے ہر نوع کے استحصال ، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات میں توازن اور مذہبی رواداری کا اہتمام کرنا ہوگا۔ داخلی ہم آہنگی کے لیے اسی طرح کے ایثار کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے کیا تھا۔

پروفیسر اکرم چودھری نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ہمیں داخلی اور خارجی حالات کا گیرائی سے جائزہ لینا ہو گا۔ اسلام دشمن طاقتیں عراق، مصر اور شام کی عسکری طاقت کو پارہ کرنے کے بعد پاکستان کی مسلح افواج پر نظریں گاڑے ہوئی ہیں۔ ہماری بہادر افواج عوام کی حمایت سے ہماری آزادی اور سلامتی کی ضامن ہیں۔ ہمارے دانشوروں، صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو اس بنیادی حقیقت کو پیش نگاہ رکھنا ہوگا۔ دینی مدارس میں جدید علوم پڑھانے اور پورے ملک میں ایک نصاب تعلیم رائج کرنے سے داخلی ہم آہنگی کو مہمیز ملے گی۔ ہمیں حضرت قائداعظم کے بلندی درجات کے لیے شب و روز دعا مانگنی چاہیے جنہوں نے ہمیں بھارت میں تیسرے درجے کے شہری بنانے سے محفوظ رکھ لیا اور ہمیں ایک سرسبز و شاداب وطن عطا کیا۔

ہم فارغ ہوئے تو پنجاب یونیورسٹی کی پُرامن اور ہم آہنگ فضا نے ہمارا دامن کھینچ لیا۔ ایک مدت کے بعد اُسے ایک ایسا وائس چانسلر فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے توسط سے ملا ہے جو ہر کام قاعدے اور قانون کے مطابق سرانجام دے رہا ہے اور یونیورسٹی کا معیار بلند کرنے کیلئے شب و روز سرگرم ہے۔ پروفیسر نیاز احمد کی مشفق شخصیت نے طلبہ اور اساتذہ میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین