تحریک انصاف کو حالیہ انتخابات میں وہ کامیابی ملی ہے جس کی اسے کبھی بھی توقع نہیں رہی تھی ۔غیرمتوقع طورپر ملنے والا نیا مینڈیٹ اس قدر زیادہ ہے کہ تحریک انصاف والوں کو خوشی کے مارے نیند نہیں آ رہی۔ اس سارے عمل میںوہ لوگ ناراض ہیں جنہیں حکومتوں میں عہدے نہیںمل رہے ۔ تحریک انصاف کی پچھلی پانچ سال کی بطوراپوزیشن جدوجہد اوراب اس کے اندر کی ناراضیوں کے نتیجے میں لوگوں کی راستے الگ کرنے کی دھمکیوں سے ایک بھارتی فلم کا ڈائیلاگ یاد آگیا جس میں ہیروایک جگہ ہیروئن کو کہتا ہے کہ ـ"منزل پرپہنچنے کا مزہ تب ہی آتا ہے جب ہمسفرساتھ ہو"۔لیکن لگ نہیں رہا کہ تحریک انصاف کے سارے ہمسفراس کے ساتھ رہیں گے ۔ ان ناراضیوں اوراس کے نتیجے میں گروپ بندیوں کا اثر بھی وہیں پرہورہا ہے جہاں پراسے دوبارمینڈیٹ دیا گیا اور وہ ہے خیبرپختونخوا جہاں پرعمران خان نے وزارت اعلیٰ کی دوڑمیں شامل پرویزخٹک اورعاطف خان کی جگہ ایک نئے امیدوارمحمود خان کو بطوروزیراعلیٰ نامزد کردیا ہے اوراس عہدے کے اپنے مبینہ نامزد امیدوار عاطف خان کو ناراض کردیا ہے۔ عاطف خان کا تعلق مردان سے ہے اوران کی مخالفت سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کی تھی۔ عمران خان نے محمود خان کی نامزدگی کے بعد دونوں گروپوں کی صلح تو کرانے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی ان کے گلے میں وہ تلخی موجود ہے جوانہیں یہ کڑوی دوا پلانے کے دوران میں ہوئی ہے۔ اب جب پرویز خٹک اورعاطف خان کے گروپ اسی حکومت اوراسمبلی کا حصہ ہونگے جس کی قیادت محمود خان کرینگے ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ نازک کام محمود خان کے کندھوں پرآن پڑا ہے،بہت سارے چیلنجز ان کے انتظارمیں ہیں۔
سوات کی تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے والے محمود خان کو درپیش سب سے پہلا چیلنج ان کے بارے میںیہ تاثر ہے کہ وہ پرویزخٹک کے زیرسایہ رہ کر ان کی مرضی پر ہی عمل کرینگے اس کے علاوہ یہ تاثربھی ختم کرنا ہوگا کہ وہ اس عہدے کے اہل نہیں تھے۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران میں مختلف وزارتوں کے قلمدان کے حامل تھے سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک کے بہت ہی قریبی ساتھیوں میں سے تھے کابینہ کے ہراجلاس کا حصہ ہوتے تھے اس لئے ان کے بارے میں یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ وہ اس کے اہل نہیں۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ کوئی نیا شخص صوبہ نہیں چلا سکتا ایسا ہوتا تو اے این پی کے امیرحیدرہوتی کام نہ کرپاتے۔ وہ میرے پسندیدہ وزرائے اعلیٰ میں سے ایک تھے جو آئے تو بغیر تجربے کے تھے لیکن وہ وہ کام کرگئے جن کو ان کے مخالف مانیں یا نہ مانیں تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جائیں گے جن میں سب سے زیادہ اہم کام ان کی جانب سے مختلف اضلاع میں یونیورسٹیوں اوردیگراعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام تھا۔
محمود خان کا دوسرا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ سب کو کیسے ساتھ لے کرچلتے ہیں، پارٹی کے اندرکی گروپ بندیوں سے کیسے نمٹتے ہیں اور بیرونی مخالفین کا کیسے سامنا کرتے ہیں۔ محمود خان کو معلوم ہونا چاہئے کہ صوبے کے لوگوں نے ان کو جو میڈیٹ دیا ہے اس مینڈیٹ سے توقعات بھی بڑی والی وابستہ کررکھی ہیں جو پوری نہ ہوئیں تواب کی بار کوئی انہیں معاف نہیں کرے گا۔کیونکہ تحریک انصاف سے پہلے اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کسی کے حصے میں نہیں آئی۔صوبے کے لوگ اس مینڈیٹ کے بدلے میں معاشی ریلیف مانگیںگے صرف اگر نئے وزیراعلیٰ غریبوں کے لئے صحت والی امیدیعنی صحت انصاف کارڈ ہی تمام علاقوں تک لے جاسکیں تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ بلکہ نئے وزیراعلیٰ کے لئے بڑا چیلنج تو یہ بھی ہوگا کہ اگر نجی اسکولوں میں بچوں کوپڑھانے والے والدین کو یہ اعتماد دیں کہ کوئی اسکول مینجمنٹ والدین کے ساتھ زیادتی نہ کرسکے گی اورانہیں گرمیوں میں فیسوں کے لئے نارواتنگ نہیں کیا جائے گا۔صوبے کے لوگ پوری طرح باخبر ہیں کہ اب تو صوبے میں دوتہائی والوں کی اکثریت ہے جن کو حکومت ورثے میں مل چکی ہے اوریہ پہلی حکومت کا تسلسل ہے پالیسیاں اورکام کا تجربہ گزشتہ دورحکومت میں ہوچکا ہے گزشتہ دورحکومت میں اگرپارٹی یہ کام نہیں کرسکی تھی تو اس میں سب سے زیادہ کچھ مفاد پرست لوگوں کا ہے جو پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان تھے۔
محمود خان کے سامنے سب سے اہم چیلنج دہشت گردی کے خلاف آپریشنوںسے متاثرہونے والے علاقوں سوات اورگردونواح کی بحالی ہوگی جن کے حسن کا کوئی ثانی نہیں۔ ان علاقوں میں وہ اگر سڑکوں کی حالت کو بہتر کرسکے، علاقے میں مقامی لوگوں کو اس قابل بناسکے کہ وہ کم ازکم اپنے ہاں آنے والے سیاحوں کی بہترطورپرخدمت کرسکیں۔ ان علاقوں میں جنت کی مانند پہلے سے موجود قدرتی جھیلوں تک رسائی کو ممکن کرسکے تو پھر تو آنے والے چند سالوں میں سوات کے غموں کا ازالہ ہوسکے گا اورپھر سیاسی میدان میں بھی لوگ محمود خان کے سامنے نہیں ٹھہرسکیں گے۔اب اصل امتحان محمود خان کا ہے کہ وہ کیسے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ دراصل ایک اچھے پلانریعنی منصوبہ بندی کرنے والے منتظم ہیں یا نہیں۔